ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
مذہبی مسئلہ پیش ہو گا تو جمعیةعلماء ِہند کی رائے کو خاص وقعت اَور اہمیت دی جائے گی مگرسیاسی وجوہ سے یکا یک قائداعظم نے مسلم لیگ میں ایسے لوگ شامل کر لیے جو انگریز کے وفادارشمار ہوتے تھے اِس پر جمعیة علماء الگ ہو گئی قائداعظم نے اکابر جمعیة کے استفسار پر کہا کہ میرے وعدے پولیٹکل تھے ۔ گویا اُنھوںنے یورپ کی سیاست ہی استعمال کی اِس کے بعد سے یہ حضرات محتاط ہو گئے ۔ مسلم لیگ کے زعماء ہی اِس بات کے راوی ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم فرمایا کرتے تھے کہ ''میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں '' ممکن ہے اُس وقت اُنہیں یہ کم قیمت کھوٹے سکے ہی قیمتی سیاسی مہرے لگے ہوں یا اُنہیں مغالطہ ہوا ہو اَور اُنہوں نے سچ مچ اُنہیں کھرا سمجھ لیا ہو ۔ موجودہ پاکستان - ایک سوال ؟ : تاریخ کے مطالعہ کے وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر پاکستان کا اِتناتھوڑا علاقہ کیوں رہ گیا ؟وہ بظاہر یہ ہے کہ یکایک حالات نے کروٹ لی اَور مسٹر جناح برطانیہ کے زیراَثر مگر جداگانہ مسلم ریاست کے مطالبہ پرجم گئے جس کی وجہ یہ ہوئی کہ مسٹر نہرو نے ایک بیان دیا جو غیر ذمہ دارانہ اَور اشتعال انگیز تھا اُس زمانہ میں نہرو کانگریس کاصدر تھا اِس لیے اُس کا اَثر مسٹر جناح نے فوراً لیا اَور وہ تقسیمِ ہند کے مطالبہ پر آگئے ۔ جمعیة علمائِ ہند اپنے فارمولے پر قائم رہی اَور مسلم لیگ نئے فارمولے پر جمی رہی ۔الیکشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بن کر اُبھری اَور اُسی کی بات پر فیصلہ ہوا۔لیکن سوانح قائداعظم کے مطالعہ سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ٣١ مارچ ٤٦ء تک خود قائداعظم نے اِس ریاست کی حد بندی کا خاکہ اپنے ذہن میں پختگی سے طے نہیں کیا تھا اُنہوں نے رائٹر کے نمائندے کو اِنٹرویو دیا، اُس میںفرمایا : ''ہمیں (کیبنٹ مشن) وفد سے مل کر بہت خوشی ہوگی۔ ہم تفصیلات طے کرنے پر آمادہ ہیں لیکن پاکستان کے سوال پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔'' ( قائد اعظم جناح ص ٤٧٠ مصنفہ جی الانا مترجمہ رئیس اَمروہوی، مطبوعہ فیروز سنز، تیسرا اَیڈیشن) قائد اعظم کے سوانح نگاروں میں کسی مستند سوانح نگار نے مملکت کے طے کردہ یا مجوزہ نقشے بالکل نہیں دیے اَور قائد ِ اعظم کا یہ بیان بالکل ٤٠۔٤١ء کے بیان جیسا ہے۔