ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
ہے اُس سے اَندازہ ہوتا ہے کہ کشمیر پاکستان میں ہوتا( ص ٥٨) پورا پنجاب پاکستان ہوتا۔ اَور گنگا جمنا کا پانی ستلج اور بیاس میں اُن کے منبع سے منتقل کر لیا جاتا۔ بنگال اَور آسام پاکستان میں ہوتا۔ کوئلہ کی کانیں ہمارے پاس ہوتیں۔ بنگال کی عظیم بندرگاہ کلکتہ پاکستان میں ہوتی (ص ٦١)۔ اِسی خطبہ میں ص ٧١ پرسُرخی ہے : پاکستان کا نظامِ حکومت اَور اِس عنوان کے تحت تحریر ہے : ''اَب آپ نے سمجھ لیا کہ پاکستان کیا ہے ؟ اگر یہ پاکستان بن گیا تو وہاں نظام ِ حکومت کس قسم کا ہوگا۔ اِس کے متعلق ہم سرِ دست بدوں تفصیلات میں جائے اُنہی اعلانات پر اکتفاء کرتے ہیں جو آل اِنڈیا مسلم لیگ کے قائد ِ اعظم محمد علی جناح اُس کے جزل سیکرٹری نواب زادہ لیاقت علی خان اَور اُس کی مجلس ِ عمل کے صدر نواب محمد اسما عیل خان صاحب وقتًا فوقتًا کرتے رہے ہیں کہ سرزمین ِ پاکستان میں قرآنِ کریم کے سیاسی اصول کی بنیادوں پر اِسلام کی حکومت ِعادلہ قائم ہوگی جس میں تمام اَقلیتوں کے ساتھ منصفانہ بلکہ فیاضانہ برتاؤ کیاجائے گا۔''( ص ٧١،٧٢) ملک بھر میں مسلم لیگ اَور علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمة اللہ علیہ کی قائم کردہ جمعیة علمائِ اِسلام کے جابجا اجلاس ہورہے تھے اَور تقسیمِ ملک کے فوائد بیان کیے جارہے تھے۔ علامہ عثمانی نے ایک تقریر میں نقشہ بھی چھاپا تھا اَور سب کو یہ نظر آرہاتھا کہ پاکستان (٤٧ء میں معرض وجود میں آنے والے پاکستان سے تقریبًا پونے دو گنا) بڑا ملک ہوگا۔ پورا آسام، پورا پنجاب، کشمیر سب پاکستان ہوگا۔ علامہ کی طرف سے اُس زمانہ میں مسلمانوں کے لیے فلاحی مملکت پاکستان کاجو نقشہ طبع ہوا تھا وہ یہ تھا : البتہ اِس میں پورا کشمیر پاکستان میں نہیں دِکھایا گیا۔