ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُوْر رَّحِیْم o قَدَ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِکُمْ وَاللّٰہُ مَوْلٰکُمْ وَھُوَالْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ o (سورۂ تحریم) اے نبی جس کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے آپ اُسے (قسم کھا کر ) کیوں حرام کرتے ہیں ۔ آپ اپنی بیویوں کی رضا چاہتے ہیں اور اللہ غفور رحیم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو تمہاری قسموں کا کھولنا (یعنی کفارہ دینا مقرر فرمایا ہے ) اور اللہ کار ساز ہے اور وہ علیم و حکیم ہے ۔ واقعہ طلاق اَور رُجوع : آنحضرت ۖ نے حضرتِ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی تھی پھر دُوسرے روز حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور بارگاہِ رسالت میں عرض کیا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ یہ حکم فرماتے ہیں کہ عمر پر شفقت فرماتے ہوئے حفصہ رضی اللہ عنہا کو اپنے نکاح ہی میں رکھیے ،دُوسری روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے تشریف لا کر عرض کیا کہ آپ حفصہ رضی اللہ عنہا کو اپنے نکاح ہی میں رکھ لیں کیونکہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والی اور راتوں کو بہت زیادہ نماز پڑھنے والی ہیں اور جنت میں آپ کی بیوی ہوں گی چنانچہ آپ ۖ نے رُجعت ١ فرمائی یعنی اُن کو اپنے نکاح میں رکھ لیا ۔(الاصابہ عن ابن سعد) ایک دِل لگی کا واقعہ : حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عجیب ہوشیاری کی جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یوں بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ۖ جب سفر پر جاتے تو دِلداری کے لیے قرعہ ڈالا کرتے تھے کہ کس بیوی کو ساتھ لے جائیں ،ایک مرتبہ( دو عورتوں کو لے جانا چاہا اور ) قرعہ ڈالا تو میرا اَور حفصہ رضی اللہ عنہا کا نام نکل آیا لہٰذا ہم دونوں آپ کے ساتھ روانہ ہو گئے ۔راستہ میں رات کو آنحضرت ۖ میرے اُونٹ پر سوار ہو جاتے اور باتیں کرتے رہتے ۔ ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا کہ آج تم میرے اُونٹ پر سوار ہو ١ طلاق کی تین قسمیں ہیں جن میں ایک قسم وہ ہے جسے رجعی طلاق کہتے ہیں۔اس کے بعد بغیر نکاح ہی واپس کر لینا درست ہے۔اِس کو رجعت کہتے ہیں ۔تفصیل کے لیے فقہ کی کتابیں دیکھیں۔