ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
جادُو کی۔ تورسول اللہ ۖ سے پوچھا گیا تو آپ نے اِرشاد فرمایا کہ یہ شیطانی کام ہے فَقَالَ ھُوَ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ ١ توکچھ حضرات نے تو اِس کا بعینہ یہی مطلب لیا خصوصًا جو حضرات ردِّ بدعات میں بہت آگے بڑھ گئے اُنہوں نے اِسی طرح کا مطلب لیا ہے کہ یہ جائز ہی نہیں چاہے جائز دُعائوں کے ذریعے سے ہو۔آج سعودی عرب میں کوئی گلے میں تعویذ نہیں ڈال سکتا کسی بچے کے بھی نہیں ڈالا جاسکتا اگر وہ دیکھ لیں گے تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ شرک ہے اَور کاٹ دو۔ جھاڑ کا ترجمہ نہیں کیا جاتا : دُوسری طرف دُوسری روایات دیکھی جائیں جو صریح روایات اَور صحیح اَحادیث ہیں بلکہ بخاری شریف میں آتی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ جواز ہے اِسی طرح رسول اللہ ۖ سے دُوسری روایت میں جو آتا ہے بچھو کی جھاڑ تو جھاڑ کے اَندر کلمات ایسے استعمال ہوتے ہیں جن کا ترجمہ کسی کو بھی نہیں آتا مطلب ہی نہیں سمجھ میں آتا تو ایسے کلمات کہ جن کا مطلب سمجھ میں نہ آتا ہو اگر اہل اللہ نے استعمال کیے ہیں علماء نے استعمال کیے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں۔ ایک لفظ آتا ہے تعویذات میں بھی لکھا جاتا ہے اَھْیًا اِشَرَاھِیًا یہ چلا آرہا ہے علماء بھی استعمال کرتے آئے ہیں بُدُّوحْ یہ استعمال کرتے آئے ہیں اَور کچھ ایسے بھی ہیں جو رسول اللہ ۖ کے سامنے پیش کیے گئے کہ جناب یہ ہے جس سے ہم جھاڑتے ہیں رسول اللہ ۖ نے اُنہیں صحیح قرار دیا کہ ٹھیک ہے کرتے رہو ایسے ہی شَجَّة قَرْنِیَّة مِلْحَةُ بَحْرٍ قَفْطَةْ اَب اِس کا ترجمہ کوئی سمجھ میں نہیں آتا الگ الگ لفظوں کا ترجمہ کیا جائے تو ہوجائے گا لیکن عبارت کا مطلب نکالا جائے تو کچھ بھی نہیں سمجھ میں آتا بلکہ قَفْطَةْ اُس کے بارے میں بھی تحقیق ہی کی جائے گی کہ کیا مطلب ہے؟ مگر یہ مفید ہے جھاڑ کے لیے بچھو کاٹے کی اَور رسول اللہ ۖ نے بتلائی کہ یہ ٹھیک ہے تو وہ ٹھیک ہی ہے چاہے اُس کا مطلب نہ سمجھ میں آرہا ہو ۔تو دیکھا یہ جائے گا کہ جنابِ رسول اللہ ۖ نے یا بعد کے علمائے کرام نے اُن چیزوں کو استعمال فرمایا ہے یا نہیں، اگر استعمال فرمایا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ٹھیک نہیں روک دیا جائے گا اُس سے۔ ١ مشکوة شریف ص ٣٨٩