ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
حالانکہ سب سے پہلے یہی فتنہ اِسلام میں پیدا ہوا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تحکیم پر اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ کی تفسیر بالرائے کرکے بارہ ہزار کی جماعت نے بغاوت کی اور علیحدہ ہو گئی ، اِس کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کَلِمَةُ حَقٍّ اُرِیْدَ بِھَا الْبَاطِلُ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکو سمجھانے کے لیے بھیجا اَور فرمایا کہ قرآن ذُو وجوہ ہے ، اُن لوگوں کوسنت سے سمجھانا۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سمجھایا جس پر آٹھ ہزار آدمی تائب ہو گئے مگر چار ہزار اپنی رائے اَور ضد پر قائم رہے اَور تکفیر و قتل کا بازار گرم کرتے رہے، یہی فرقہ ''خوارج'' کے نام سے مشہور و معروف ہوا ۔ اِس کے بعد اِس تفسیر بالرائے کی وباء اِس قدر پھیلی کہ نہ صرف مسئلہ تحکیم میں بلکہ دیگر مسائل میں بھی اپنی آراء کو عمل میں لایا گیا، مرتکب کبائروغیرہ دیگر مسائل میں بہت زیادہ اَفراط و تفریط جاری ہوئی اور نہ صرف خوارج ہی تک محدودیت رہی بلکہ فتنہ ہائے معتزلہ ، روافض، جہمیہ ، کرامیہ، مجسمہ ، مرجیہ وغیرہ اِسی تفسیر بالرائے کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئے ۔اہل سنت والجماعت ہمیشہ اتباع سنت اَور اَسلاف صالحین صحابہ کراماور اَفاضل تابعین کو پیشوا اَور رہبر بناتے ہوئے اپنی آراء اَور مذاق کو اُن ہی کے رنگ سے رنگ کر فائز المرام ہوئے اَور مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ کی سند حاصل کرتے رہے بعینہ یہی واقعہ اَز منہ اَخیرہ میں پیش آیا ، نیچریہ ، قرآنیہ ، (اَتباع چکڑالویہ) قادیانیہ ، خاکسار، بہائیہ وغیرہ نے بھی یہی تفسیر بالرائے کی اور اَپنی عقل و مذاق کو پیشوا بنایا اور نصوص کو اِس طرح کھینچا یا ترک کر دینا اختیارکیا ۔ جناب رسول اللہ ۖ نے اِسی کی پیش بندی کرتے ہوئے فرمایا تھا : مَنْ فَسَّرَالْقُرْاٰنَ بِرَأْیِہ فَقَدْ کَفَرَ (اَوْکَمَا قَالَ ) کیا تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ صحابہ کرام اور اُن کے تلامیذ جن کی مادری زبان عربی تھی اَور جنہوں نے وحی ٔخداوندی کا مشاہدہ کیا تھا جناب رسول اللہ ۖ کے وجودِ باوجود اَور آ پ ۖ کے اعمال و سنن کو دیکھنے والے تھے اَور تابعین جو مشاہدین ِوحی کے شاگردِ رشید تھے ،اُن کی تفسیریں تو بالائے طاق رکھ دی جائیںاور اُن کو مردود اَور غلط قرار دے دیا جائے اوراُن کے مقابلہ میں تیرہ سوبرس کے بعدکے پیدا ہونے والے عجمی اشخاص جن کوزبانِ عربی اَور اُس کے اَدب اور اُصول ِدین وغیرہ میں کوئی مہارت ِتامہ بلکہ ناقصہ بھی نہ ہو صرف کیمرج یا آکسفورڈ یا کسی یونیورسٹی یا کالج کی ڈگریوں اَور معمولی عربیت کی بنا پر اُن کی تفسیروں کو معتمد علیہ قرار دے دیا جائے جن لوگوں کی عمریں زبانِ عربی اَور علومِ دینیہ پڑھتے پڑھاتے