ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
عبد الملک بن عمیر عن عائشہ : طبقات ِ ابن ِسعد میں بھی موجود ہے آپ اُن روایات کے حافظ ہیں پھر یہ روایت جو اِسی کتاب میں موجود ہیں نظر نہیں پڑی۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بظاہر آپ کو اپنی تحقیقات میں واضح تقصیرات کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہے۔ اس کے بعد آپ نے نمبر وار پوری تحریر کا خلاصہ بیان فرمایا ہے۔ میں اپنے اِس خط کا خلاصہ نمبر وار اِس لیے نہیں لکھتا کہ یہ خواہ مخواہ مناظرہ کی صورت بن جائے گی۔ جو کچھ عرض کر سکتا تھا وہ لکھ ہی چکا ہوں لہٰذا اِن کا جواب یہی ہے کہ آپ کے خلاصہ کے سب نمبر میرے نزدیک بے وزن ہیں۔ خلاصہ کے ٢٦ میں ابو بکر... ابن ِابی شیبہ کو مدلس.... کہہ کر (٢٧) میں ابو معاویہ پر طعن کر کے (٢٨) میں اعمش کو کوفہ کے شیعوں کا اِامام کہہ کر (رحمہم اللہ ) صرف اپنی بات منوانی چاہتے ہیں جیسے کوئی کسی بات کو پہلے سے طے کر لے کہ یہ کر کے چھوڑ نا ہے چاہے جو ہو چاہے اِدھر کی دُنیا اُدھر ہوجائے۔ یہی طرز ِ فکر سر سید کا ہے اور اُس سے لے کر پر ویز تک چلا آ رہا ہے اِسی کانام جدید اصطلاح میں تحقیق رکھ لیا گیا ہے۔ (٣٣) میں آپ نے لکھا ہے اِس کے بعد بھی اگر میں غلطی پر ہوں تو واضح فرمائیں۔ ٭ اِس کے بارے میں ایک تو یہ عرض ہے آپ کی اصولی غلطی پہلے ہی سے مبسوط طرح لکھ چکا ہوں کہ متابعت کا اصول یہاں نہیں چلے گا۔ اور جہاں جہاں آپ ہٹے ہیں وہاں نشان دہی کرتا آیا ہوں۔ لیکن اِس انداز ِ فکر والوں سے میںمایوس ہوں جو اپنی بات کی خاطر قول ِ ضعیف کو قوی قرار دیں اور کہیں اپنے ہی طے کردہ اصولوں کے بھی خلاف بات کرنی پڑے تو کر ڈالیں جیسے زہری کے بارے میں۔ دُعاء ضرور کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اِس دلدل سے نکالے۔ رجالِ حدیث کے بارے میں بھی قول مفتی بہ چلتا ہے آپ مذکورہ بالا نمبروں اور اپنی تحریرات ِ سابقہ میں مثلاً زہری اور عبدالرزاق کے بارے میں محدثین کے قول ِ مفتی بہ کو چھوڑ کر قول ِ مرجوع ضعیف اور منقطع السند تک کو صرف اپنی مرضی کے لیے قول ِ فیصل قرار دیتے آئے ہیں۔ اس سے رجوع فرمائیں اور ایسا کرنا چھوڑ دیں۔ محض طعن اور مثالب ذکر کرنا اور مناقب کے بارے میں سکوت کرنا بلکہ مناقب حذف ہی کر دینا نہایت غلط بات ہے۔ مولانا عبد الحئی صاحب لکھنوی رحمة اللہ علیہ کی کتاب '' اَلرَّفْعُ وَالتَّکْمِیْلُ '' میں اصول