ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
ہوگئے۔ خدام نے (اُن بزرگ سے) اِس کا سبب پوچھا ۔فرمایا کہ میں نے نکاح کا تقاضا کسی نفسانی ضرورت کی وجہ سے نہیں کیا تھا بلکہ اُس کی منشاء (سبب)یہ تھا کہ میں نے خواب دیکھا تھا کہ میدان ِ قیامت برپا ہے اور لوگ پل صراط سے گزررہے ہیں جو دو زخ کے اُوپر بچھا ہوا ہے۔ پھر میں نے ایک شخص کو دیکھاکہ پل صراط سے گزرتے ہوئے اُس کے قدم ڈگمگائے اور قریب تھا کہ جہنم میںجا گرے کہ اچا نک ایک بچہ نے آکر اُس کو سنبھالا اور مضبوطی کے ساتھ اُس کا ہاتھ پکڑ کر بجلی کی طرح پل صراط سے پار لے گیا۔ میں نے فرشتوں سے پوچھا کہ یہ بچہ کون تھا کہا کہ اُسی شخص کا بیٹا تھا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا آج اُس کا سفارشی ہوگیا۔ خواب سے بیدار ہو کر مجھے فکر ہوئی کہ میرے پاس آخرت کی اَور جائدادیں تو ہیں یعنی عبادتیں نماز روزہ وغیرہ مگر یہ جائداد نہیں اِس لیے میں نے چاہا کہ یہ جائداد بھی پاس ہونا چاہیے۔ چنانچہ نکاح ہوا اور بچہ پیدا ہو کر مرگیا تو اُن کا مقصود حاصل ہوگیا۔ ( الاجر النَبیل فضائل صبر وشکر) ایک حدیث ِ پاک کا مفہوم : حدیث میں آتاہے کہ جب کسی مسلمان کا بچہ مرتا ہے تو ملائکہ اُس کی رُوح کو لے کر آسمان پر پہنچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن سے اِرشاد فرماتے ہیںکہ تم نے میرے بندے کے بچہ کو لے لیا؟ وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ہاں۔ پھر فرماتے ہیں کیا تم نے میرے بندے کے جگر گوشہ کو لے لیا؟ وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ہاں۔پھر فرماتے ہیں میرے بندہ نے کیا کہا۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ اُس نے آپ کی حمد (یعنی آپ کا شکر اَدا کیا) اور صبر کیا۔اِس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گواہ رہو میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا اور فرمایا اُس کے لیے جنت میں ایک محل تیار کرو اَور اُس کا نام '' بَیْتُ الْحَمْدْ'' رکھو۔ یہ چھوٹوں کے مرنے پر وعدہ ہے جس سے ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ بچوں کے مرنے پر نعم البدل (یعنی اچھا بدلہ) عطا فرماتے ہیں یعنی مغفرت اور جنت کا محل۔(جاری ہے)