ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
جس کے لیے وہ بھر پور کو شش میں لگا رہتا ہے۔ ٢۔ قطع رحمی کے انجام میں غور و فکر کر نا : قطع رحمی کا نتیجہ حزن وملال، حسرت وندامت اَور اِسی طرح کی دُوسری افسوس ناک چیزیں ہیں، اِس میں غور کرنا قطع رحمی سے بچنے اَور دُور رہنے میں معین ومدد گار ثابت ہوگا،انشاء اللہ۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا : اللہ تعالیٰ سے صلہ رحمی کرنے کی توفیق اور اقرباء کے ساتھ اچھا تعلق رکھنے کی دُعا کرے۔ ٤۔ برائی کے مقابلے میں اچھائی کرنا : یہ ایسی خصلت ہے جو تعلق ومحبت کو باقی رکھتی ہے رشتہ داروں کے تعلقات کی حفاظت کر تی ہے چنانچہ آدمی کے لیے رشتہ داروں کی سختی اور برائی کا تحمل آسان ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے ایک شخص نے نبی اکرم ۖ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ قطع رحمی کرتے ہیں،میں اُن کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کا معاملہ کرتے ہیں، میں اُن کے ساتھ علم والا معاملہ کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت والا معاملہ کرتے ہیں۔ جناب ِ نبی کریم ۖ نے اِرشاد فرمایا : اگر ایسا ہی ہے جیسا تو نے کہا '' فَکَاَنَّمَا تُسَُفِّھُھُمُ الْمَلَّ وَلَا یَزَالُ مَعَکَ مِنَ اللّٰہِ ظَھِیْر مَادُمْتَ عَلٰی ذَالِکَ ۔'' (مسلم ٢٥٥٨) حضرت امام نووی نے اِس حدیث کی شرح میں فرمایا : اِس حدیث میں اُس تکلیف کی جو اُس کو رشتہ داروں سے پہنچتی ہے اُس تکلیف کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو گرم راکھ کھا نے سے پہنچتی ہے جبکہ اُس اچھائی کرنے والے کا کوئی نقصان نہیں بلکہ اُس کے رشتہ داروں کے حصے میں قطع رحمی کر نے اور اُسے تکلیف پہنچانے کی وجہ سے بہت بڑا گناہ آیا ہے۔ (ایک دُوسرے قول کے مطابق ) : مطلب ِحدیث یہ ہے کہ آپ اپنے اچھے اَخلاق کے ذریعے اُسے رُسوا کرتے رہیں اور اُن کی ذات کو اُن کے ہی دِلوں میں حقیر بنادیں اپنے اَحسانات کے ذریعے سے بُرے کرتوتوں کی رُسوائی اور حقارت اُن کی ذات پر ہی پڑے گی۔ (ایک تیسرے قول کے مطابق ) : مطلب ِحدیث یہ ہے کہ جو لوگ اُس کے احسان کی وجہ سے