ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
تو تمام لوگوں کے معاملے میں اچھی ہے اور رشتہ داروں کے معاملے میں بہت ہی اَولیٰ ہے۔ ابن ِحبان رحمہ اللہ نے فرمایا : جو شخص لوگوں کے ساتھ اُن کے ناپسندیدہ کاموں کے سلسلے میں چشم پوشی سے کام نہیں لیتا اُن کی اچھی چیز سے ترک ِتوقع نہیں کرتا تو اُس شخص کی زندگی مکدر ہونے کے زیادہ قریب ہے روشن ہونے کے بہ نسبت اور یہ دل میں اُن کے بغض و عناد پیدا ہونے سے زیادہ قریب ہے بہ نسبت محبت و مودّت پیدا ہونے کی۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں بہت سی چیزوں سے چشم پوشی کرلیتا ہوں اور میں چشم پوشی پر قادر ہوں، کوئی اَندھا پن کی وجہ سے چشم پوشی اختیار نہیں کرتا لیکن بعض اوقات بینا شخص چشم پوشی اختیار کرتا ہے۔ اور بہت سی چیزوں کے متعلق بولنے کی قدرت ہونے کے باو جود خاموشی اختیار کرتا ہوںاور بولنے کے سلسلے میں ہم پر کوئی اَمیر نہیں ہے۔ ٩۔ خدمت کرنا : جان کے ذریعے اور جاہ ومال کے ذریعے خدمت کرنا۔ ١٠۔ احسان نہ جتلانا اور بدلے کا طالب نہ ہونا : یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ صلہ رحمی کرنے والا بدلے کے مقابلے میں صلہ رحمی نہیں کرتا۔ اور بقاء تعلق و محبت کا طریقہ یہ ہے کہ اِنسان رشتہ داروں کے ساتھ بخشش کا معاملہ کرے اور بدلے کا مطالبہ نہ کرے اَور یہ کہ اپنی عطا اور بخشش یا بار بار تشریف آوری کا احسان اُن پر نہ جتلائے۔ ١١۔ رشتہ داروں کی طرف سے قلیل پر بھی نفس کو رضا مند کرنا : عقلمند اور کریم النفس شخص اپنا حق کامل اور پورا پورا وصول نہیں کرتا بلکہ تھوڑے پر راضی ہوتا ہے اور رشتہ داروں کی طرف سے جو کوتاہی ہوتی ہے اُس سے عفو ودَرگزر کرتا ہے یہاں تک کہ اُس کی وجہ سے اُن کے دل اِس کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور اِس کی محبت اُن کے ہاں باقی رہتی ہے۔ ١٢۔ حال وخیریت وعافیت معلوم کرنا اور اُن کی طبیعت کے موافق معاملہ کرنا : بعض رشتہ دار تھوڑی سی چیز پر راضی ہوجاتے ہیں، سو اِس کے لیے تو سال میں ایک مرتبہ دیدار