ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
جرح وتعدیل ذکر کیے گئے ہیں وہ لکھتے ہیں : وَقَالَ الذَّھَبِیُّ فِیْ مِیْزَانِہِ فِیْ تَرْجُمَةِ اَبَانَ بْنِ یَزِیْدِ الْعَطَّارِ قَدْ اَوْرَدَہ اَیْضًا اَلْعَلَّامَةُ اِبْنُ الْجَوْزِیِّ فِی ''الضُّعَفَائِ'' وَلَمْ یَذْکُرْ فِیْہِ اَقْوَالَ مَنْ وَثَّقَہ وَھٰذَا مِنْ عُیُوْبِ کِتَابِہ یَسْرُدُ الْجَرْحَ وَیَسْکُتُ عَنِ التَّوْثِیْقِ ''۔(الرفع والتکمیل ص ١٥) اِس کتاب کا سبب ِتالیف اِسی قسم کی تحقیق وتنقید کا ظہور تھا ملاحظہ فرمائیں ص ٦۔ یہ کتاب اگرجناب کے مطالعہ سے نہ گزری ہو تو اَب ضرور مطالعہ فرمائیں۔ آپ نے ٢٣ نومبر ٨٠ ء کے خط میں ص ١٠ نمبر ٥٠ میں لکھا تھا : ''البتہ اِمام اعظم اور اِمام مالک کے قبول ِ روایت کے پختہ اصول ہیں اِمام مالک نے کسی بد عتی سے روایت نہیں لی' '۔ ایک طرف آپ کا یہ فیصلہ تھا دُوسری طرف آپ زہری پر سخت حملے کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔ یا تو یہ حملے اپنے ہی طے کردہ اصول اور فیصلہ کے خلاف تھے یا آپ اِس سے بے خبر تھے کہ اُن سے اِمام اعظم اور اِمام مالک رحمة اللہ علیہم نے روایات لی ہیں جو مسند ابی حنیفة اور مؤطاء اِمام مالک میں موجود ہیں (آپ کو تہذیب التھذیب کی ایک عبارت سے یہ مغالطہ بھی ہوا تھاکہ زہری عروہ سے نہیں ملے ہیں ) ۔ نیز وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ اور اَکْرِمُوْا اَصْحَابِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ (مسند حمیدی حدیث ٣٢) اور خَیْرُ اُمَّتِیْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ الحدیث وغیرہ کی رُو سے ہمارے لیے تابعین بھی تو قابل ِ احترم ہیں چہ جائیکہ جو عالم ترین بھی ہوں۔ مگر آپ اُن کے بارے میں بہت بے باک ہیں اور اُن پر اگر کوئی ضعیف الزام مل جاتا ہے تو اُسے ترجیح دیتے ہیں اور شدید تر کر کے لکھتے ہیں۔ اِسی خط میں ص ١٥ پر مزید قابل ِ غور کے عنوان سے نمبر ٥ پر لکھا : '' میں کتاب الآثار کی روایات کو بخاری کی روایات پر ترجیح دیتا ہوں '' لیکن کتاب الاثار سے بھی زیادہ مستند اور خود اِمام ابو یو سف کی لکھی ہوئی کتاب '' کتاب الخَراج '' میں اعمش رحمہ اللہ سے حَدَّثَنَا الْاَعْمَشُ کہہ کر کتنی ہی جگہ روایات درج ہیں دُوسری طرف آپ اُنہیں شیعوں کا اِمام ٹھہرا کر ساقط الا عتبار