ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
( دینی مسائل ) طلاق ِ رَجعی میں رجعت کر لینے کا بیان : مسئلہ : جب کسی نے رجعی ایک طلاق یا دو طلاقیں دیں تو عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے مرد کو اختیار ہے کہ اُس کو روک رکھے پھر سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں اور عورت چاہے راضی ہو یا نہ ہو اُس کو کچھ اختیار نہیں ہے اور اگر تین طلاقیں دے دیں تو اُس کا حکم اُو پر بیان ہو چکا اُس میں یہ اختیار نہیں۔ مسئلہ : رجعت کرنے یا روک رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ یاتو صاف صاف زبان سے کہہ دے کہ میں تجھ کو پھر رکھے لیتا ہوں تجھ کو نہ چھوڑوں گا یا یوں کہہ دے میں اپنے نکاح میں تجھ سے رجوع کرتاہوں یا عورت سے نہیں کہا کسی اورسے کہہ دیا کہ میں نے اپنی بیوی کو پھر رکھ لیا اور طلاق سے باز آیا۔ بس اِتنا کہنے سے وہ پھر اِس کی بیوی ہوگئی۔ مسئلہ : جب عورت کو روک رکھنا منظور ہو تو بہتر ہے کہ کم اَز کم دو مردوں کو یا ایک مرد اَور دو عورتوں کو گواہ بنالے کہ شاید کبھی کچھ جھگڑا پڑے تو کوئی مکر نہ سکے۔اگر کسی کو گواہ نہ بنایا تنہائی میں ایسا کر لیا تب بھی صحیح ہے مطلب تو حاصل ہو ہی گیا۔ مسئلہ : اگر عورت کے سامنے رجعت نہ کی بلکہ اُس سے علیحدہ ہوکر کی تو عورت کو رجعت کی خبر دینا مندوب ہے تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عدت کی مدّت ختم ہونے پر وہ لا علمی میں کسی اَور سے نکاح کر لے۔ مسئلہ : رجعت کی نیت نہ تھی لیکن زبان سے ویسے ہی کہہ دیا کہ میں نے بیوی کو اپنے نکاح میں باقی رکھا تو اِس سے بھی رُجعت ہوگئی۔ مسئلہ : اگر عورت کی عدت گزر چکی تب ایسا کرنا چاہا تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اَب اگر عورت منظور کرے اَور راضی ہو تو پھر سے نکاح کرنا پڑے گا۔ نکاح کے بغیر نہیں رکھ سکتا۔اگر وہ رکھے بھی تو عورت کو اِس کے پاس رہنا دُرست نہیں۔ مسئلہ : جس عورت کو ایک یادو طلاقِ رجعی ملی ہوں جس میں مرد کو طلاق سے باز آنے کا اِختیار ہوتا