ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
کرنا اور ٹیلفون پر گفتگو کرنا اُس کے لیے کافی ہے، بعض صرف خندہ پیشانی اور بشاشت ِچہرہ سے خوش ہوتے ہیں، بعض اپنا حق کامل معاف کر دیتے ہیں اور بعض بار بار آنے کے بعد راضی ہوتے ہیں، اُن کے ساتھ اُن ہی کی حالت کے موافق معاملہ کرنا صلہ رحمی اور بقاء ِمحبت میں معین ثابت ہوتا ہے۔ ١٣۔ رشتہ داروں سے بے تکلفی : یہ بھی صلہ رحمی کے سلسلے میں معین ثابت ہو تی ہے بلکہ صلہ رحمی پر اُبھا رتی ہے، رشتہ دار جب دیکھتے ہیں کہ فلاں شخص بناؤٹی اور تکلف کر نے والا نہیں بلکہ بے تکلف ہے تو اُس کے ساتھ صلہ رحمی کر نے اور اُس کی زیارت پرزیادہ اُنس ومحبت کا مظاہرہ کر تے ہیں۔ ١٤۔ زیادہ ڈانٹ نہ پلانا : تاکہ رشتہ دار آنے سے مانوس ہوں اور اِس سے خوش ہوں، کریم النفس شخص وہ ہے جو لوگوں کے حقوق اَدا کرے اور اگر کوئی اُس کے حقوق میں کوتا ہی کرے تو چشم پوشی کرے اور اگر قابل ِعتاب خطا کسی سے سر زد ہو بھی جائے تو عتاب میں نرمی و شفقت کا مظاہرہ کرے۔ ١٥۔ رشتہ داروں کے عتاب کو برداشت کرنا اور صحیح محمل پر اُسے محمول کرنا : اہل فضل وکمال کی عادت یہ ہوتی ہے کہ اُن کی مروّت واَخلاق کامل اور اُن کی شنان اعلیٰ ہو تی ہے۔ اپنے حلم حسن تربیت اور عمدہ اخلاق کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ فراخ دِلی کا مظاہرہ کرتے ہیں جب کوئی رشتہ دار سرزنش اور سختی کرتا ہے اُس کے حق میں کوتا ہی کرنے کی وجہ سے، معتوب حضرات صحیح محمل پر محمول کر تے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عتاب کر نے والا ہم سے محبت اور شفقت کر رہا ہے، ہمارے آنے پر حریص ہے وہ اِس بات کو محسوس کر کے کوتا ہی کر نے پر عذر خواہی کر تے ہیںیہاں تک کہ اُس کی تیزی اور شدت میں کمی آجاتی ہے۔ بعض لوگ محبت اور شفقت کر تے ہیں لیکن اِس کے باوجود زیادہ ملامت کی وجہ سے اُنہیں اِس کی تعبیر کرنا نہیں آتی جبکہ کریم لوگ اُن کے ساتھ اچھا معاملہ کر تے ہیں اور اُن کے کلام کو اچھے محمل پر محمول کرتے ہیں اور بزبان ِ حال وہ کہتے ہیں کہ اگر اسلوب بیان میں تم سے غلطی واقع ہوئی ہے مگر حسن نیت میں تم سے خطاء واقع نہیں ہوئی۔