ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
اِس پر شاید کوئی یہ کہے کہ جیسے بے اَولادوں کے لیے حضور ۖ کی وفات کافی ہے۔ ایسی ہی اَولادو والوں کے لیے بھی کافی تھی۔ پھر اَولاد کی شفاعت کی ضرورت کیا تھی۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ ہم کو زیادہ تسلی کے لیے اِس کی ضرورت تھی، دو وجہ سے ایک یہ کہ رسول اللہ ۖ تو اَدب وخوف کے ساتھ سفارش فرمائیں گے اور بچہ ضد کے ساتھ شفاعت کرے گا۔ یہ بچے جس طرح یہاں والدین (ماں باپ) سے ضد کر تے ہیں قیامت میں اللہ تعالیٰ سے بھی ضد اَور نازو نخرے کریں گے چنانچہ اَحادیث میں آتا ہے کہ بچہ جنت کے دروازے پر جا کر کھڑا ہوجائے گا اُس سے کہا جائے گا کہ اَندر جاؤ کہے گا نہیں جاتا۔ پوچھیں گے کیوں؟ کہے گا جب تک ہمارے ماں باپ ہمارے ساتھ نہ ہوں گے اُس وقت تک ہم جنت میں نہیں جا سکتے۔ تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے اَیُّھَا الطِّفْلُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہ اَدْخِلْ اَبَوَیْکَ الْجَنَّةَ اے اپنے پر وردگار سے ضد کر نے والے بچے جا اپنے ماں باپ کو بھی جنت میں لے جا۔ دُوسرے عقلا ًشفاعت کرنے والوں کی تعداد بڑھنے سے زیادہ قوت وتسلی ہوتی ہے اگر چہ حضور ۖ کو اِس کی ضرورت نہیں۔ آپ تنہا ہی کافی ہیں۔ مگر طبعًا (فطری طور پر) عدد بڑھنے سے تسلی زیادہ ہوتی ہے۔ (الجبر بالصبر فضائل صبر و شکر ص٣٣١) ایک بزرگ کی حکایت : ایک بزرگ کی حکایت ہے کہ اُنہوں نے جوانی میں نکاح نہ کیا تھا اور بے نکاح رہنے ہی کی نیت کی تھی۔ ہر چند مریدوں نے عرض بھی کیا کہ شادی کر لیجئے مگر آپ نے منظور نہیں کیا۔ ایک دفعہ دو پہر کو سو کر اُٹھے تو اُسی وقت تقاضا کیا کہ میرا نکاح کر و۔ مریدوں نے فورًا اِس کی تکمیل کی۔ ایک مرید نے اپنی لڑکی سے نکاح کردیا آپ نکاح کے حقوق اَدا کرتے رہے یہاں تک کہ ایک لڑکا بھی پیدا ہوا اَور کچھ دنوں کے بعد مر گیا۔ تو آپ نے فرمایا الحمد للہ مراد حاصل ہوگئی اور بیوی سے کہا کہ اَب مجھے تیری ضرورت نہیں میرا جو مقصود تھا پورا ہوگیا۔ اَب اگر نکاح کا لطف حاصل کرنا چاہے تو میں طلاق دے کر کسی جوان صالح سے نکاح کر دُوں اور اگر میرے پاس رہنا چاہے تو کھانے پینے کی تیرے واسطے کمی نہیں مگر حقوق ِنکاح کا مطالبہ نہ کرنا ۔وہ لڑکی بھی نیک تھی اُس نے کہا مجھے تو صرف آپ کی خدمت مقصود ہے اور کچھ مطلوب نہیں۔ خدام کو یہ بات سن کر حیرت ہوئی کہ پہلے تو اِس تقاضے سے نکاح کیا تھا اَور اَب طلاق دینے کو آمادہ