ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
کھاتے ہیں اُن کی مثال مل کی طرح ہے جو کہ اَنتڑیوں کو جلادیتی ہے۔ درحقیقت یہ حدیث بہت بڑی تسلی ہے اُن لوگوں کے لیے جوکہ رشتہ داروں کی طرف سے بد اَخلاقی کا شکار ہیں، نیکی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔ اور اِس میں نیکو کاروں کو ہمت دلائی گئی ہے کہ وہ بلند اور اعلیٰ اخلاق پر قائم ودائم رہیں کہ اللہ اُن کے ساتھ ہیں اُن کی مدد ونصرت کر نے والے اور بدلہ دینے والے ہیں۔ ٥۔ معذرت پر عذر قبول کرنا : کیا ہی اچھا معاملہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ اُن کے بھائیوں نے کیا کچھ نہیں کیا تھا لیکن اُنہوں نے عذر خواہی کی تو عذر قبول کرلیا اور اُن سے در گزر کیا اچھے طریقے سے، لعنت وملامت کی نہ اُنہیں کوئی تکلیف پہنچائی اَور ڈانٹ پلائی بلکہ اُن کے لیے دُعا کی اَور اللہ تعالیٰ سے اُن کے لیے مغفرت وبخشش کی دُعا مانگی ۔ ٦۔ بغیر معذرت کے بھی اُن سے در گزر کرنا : اور اُن کے عیبوں کو بھلانا ، یہ ایک اچھی صفت اور شرافت نفس وعلو ہمت پر دلالت کر تی ہے، چنانچہ سمجھدار اور عقلمند شخص رشتہ داروں سے عفوو دَرگزر کر کے ہمیشہ اُن کے عیوب پر پردہ ڈال دیتا ہے گویا یاد ہی نہیں۔ ٧۔ عاجزی ونر می اِختیار کرنا : یہ ایک ایسی صفت ہے کہ آدمی کو رشتہ داروں میں محبوب اور اُن کے قریب کر دیتی ہے۔سچ کہا ہے کسی نے : جو شخص سرداری کا خواہشمند ہوا تو اُسے تقویٰ اور نرمی اختیار کرنی چاہیے اور برائی کرنے والے کی طرف توجہ نہ دے اور ساتھی کی جہالت پر برداشت کا مظاہرہ کرے۔ ٨۔ چشم پوشی اختیار کرنا : چشم پوشی اور تغافل (اَنجان پن) بڑے اَور با عظمت لوگوں کے اخلاق میں سے ہے یہ ایسی چیز ہے جو محبت پیدا کرتی ہے۔ یقینا یہ ایسی صفت ہے کہ دُشمنی کو دبانے اور بغض وعناد کو ختم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے نیز شفاف شخصیت اور اُس کی بلندی پر دلالت کرتی ہے اور مرتبہ و شان کو کو بلند کرتی ہے بلکہ یہ چشم پوشی