ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
حرمت ِ مصاہرت ۔ کچھ نئے کچھ پرانے زاویے ( حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب ) نوٹ : اہل ِ علم و اِفتاء سے گزارش ہے کہ وہ اِس مضمون کا مطالعہ فرمائیں اور جو بات غلط نظر آئے اُس کی نشاندہی فرمائیں۔ ہم حق کے سامنے آنے پر انشاء اللہ اپنی بات پر اِصرار نہ کریں گے۔ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٍ ۔ بِسْمِ اللّٰہِ حَامِدًا وَّمُصَلِّیًا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا حرمت ِمصاہرت سے کیا مراد ہے ؟ : جب کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرتا ہے تو اُس کے نتیجہ میں قرآن و حدیث کی رُو سے مندرجہ ذیل رشتوں سے نکاح کرنا حرام ہوجاتا ہے : -i اپنی ساس سے اور ساس کی دادی اور نانی وغیرہ سے۔ -ii بیوی کے ساتھ تنہائی بھی ہوچکی ہو تو سوتیلی بیٹی سے۔ -iii عورت کے لیے سوتیلے بیٹے سے۔ -iv مرد کے لیے اپنے بیٹے اور پوتے کی بیوی سے اور عورت کے لیے اپنی بیٹی اور پوتی کے شوہر سے۔ نکاح کی اِس حرمت کو حرمت ِ مصاہرت یا آسان لفظوں میں سُسرالی حرمت کہتے ہیں۔ حرمت ِ مصاہرت کے چند اور مواقع : کسی مرد نے کسی اجنبی عورت سے زنا کیا تو اَب اُس مرد کا اُس عورت کی ماں سے اور اُس عورت کی بیٹی سے نکاح کرنا دُرست نہیں رہتا اور یہی حکم اُس وقت ہے جب مرد نے زنا تو نہیں کیا لیکن شہوت سے عورت کے جسم پر ہاتھ پھیرا ہو خواہ بلاحائل ہو یا ایسا باریک کپڑا بیچ میں حائل ہو جو جسم کی حرارت محسوس ہونے سے مانع نہ ہو۔ اگر عورت کا بوسہ لے یا عورت کی اندرونی شرمگاہ پر شہوت سے نظر ڈالے تو اُس کا بھی یہی حکم ہے۔