ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( روٹی کپڑے اور رہائش کا بیان ) مسئلہ : بیوی کا روٹی کپڑا مرد کے ذمّہ واجب ہے۔ عورت چاہے کتنی مالدار ہو مگر خرچ مرد ہی کے ذمّہ ہے اور رہنے کے لیے گھر دینا بھی مرد کے ذمّہ ہے۔ مسئلہ : نکاح ہوگیا لیکن رُخصتی نہیں ہوئی تب بھی روٹی کپڑے کی دعویدار ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر مرد نے رُخصت کرانا چاہا پھر بھی رُخصتی نہیں ہوئی تو روٹی کپڑا پانے کی مستحق نہیں۔ مسئلہ : بیوی بہت چھوٹی ہے کہ صحبت کے قابل نہیں تو اگر مرد نے کام کاج کے لیے یا اپنا دل بہلانے کے لیے اُس کو اپنے گھر رَکھ لیا تو اُس کا روٹی کپڑا مرد کے ذمّہ واجب ہے اور اگر نہ رکھا میکے بھیج دیا تو واجب نہیں۔ مسئلہ : اگر شوہر چھوٹا نابالغ ہو لیکن عورت بڑی ہو تو اُس کو روٹی کپڑا ملے گا۔ مسئلہ : روٹی کپڑے میں دونوں کی رعایت کی جائے گی۔ اگر دونوں مالدار ہوں تواَمیروں کی طرح کا کھانا کپڑا ملے گا اور اگر دونوں غریب ہوں تو غریبوں کی طرح اور اگر ایک اَمیر اور دُوسرا غریب ہو تو درمیانہ روٹی کپڑا ملے گا یعنی جو اَمیری سے کم اور غریبی سے زیادہ ہو۔ مسئلہ : کپڑے کے سال میں عورت دو جوڑے لینے کی حق دار ہے ایک گرمی کا ایک سردی کا۔ مسئلہ : یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زوجین آپس میں باہمی سمجھوتہ سے کوئی خرچہ مقرر کرلیں یا اِختلاف کی صورت میں عدالت یا یونین کونسل سے مقرر کرالیں۔ مسئلہ : عورت اگر بیمار ہے کہ گھر کا کاروبار نہیں کرسکتی یا ایسے بڑے گھر کی ہے کہ اپنے ہاتھ سے پیسنے، کوٹنے، کھانا پکانے کا کام نہیں کرسکتی بلکہ عیب سمجھتی ہے اور وہاں کے رواج میں لوگ اِس کو گھٹیا بات سمجھتے ہیں تو پکا پکایا کھانا دیا جائے گا اور اگر دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہ ہو تو گھر کا سب کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنا واجب ہے۔ یہ سب کام خود کرے، مرد کے ذمّہ فقط اِتنا ہے کہ چولہا چکی کچا اَناج، لکڑی کھانے پینے کے برتن وغیرہ لادے، عورت اپنے ہاتھ سے پکائے اور کھائے۔