ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
اِلاَّ اَنَّ الشَّیْخَ ذَکَرَہ بَیَانًا لِحِکْمَةِ الْعِلَّةِ یَعْنِیْ اَنَّ الْحِکْمَةَ فِیْ ثُبُوْتِ الْحُرْمَةِ بِھٰذَا الْوَطْئِ کَوْنُہ سَبَبًا لِّلْجُزْئِیَّةِ بِوَاسِطَةِ الْوَلَدِ۔ جواب : ہم کہتے ہیں کہ ایک ہے حکم کی حکمت اور ایک ہے علت کی حکمت۔ حکم کی حکمت کا ترتب تو حکم پر ہوتا ہے اور حکم کا مدار واقعی اِس پر نہیں، علت پر ہوتا ہے۔ لیکن جو علت کی حکمت ہوتی ہے وہ مختلف چیز ہے۔ علت کا تحقق اُسی وقت ہوتا ہے جب وہ حکمت پائی جارہی ہو یا اُس کا احتمال ہو۔ اگر کہیں اِس حکمت کا احتمال ہی نہ ہو تو علت کا تحقق بھی نہ ہوگا۔ ابن ہمام رحمہ اللہ کی عبارت کو دوبارہ ملاحظہ کیا جائے : اَنَّ الشَّیْخَ ذَکَرَہ بَیَانًا لِحِکْمَةِ الْعِلَّة یَعْنِیْ اَنَّ الْحِکْمَةَ فِیْ ثُبُوْتِ الْحُرْمَةِ بِھٰذَا الْوَطْئِ کَوْنُہ سَبَبًا لِّلْجُزْئِیَّةِ بِوَاسِطَةِ الْوَلَدِ۔ صاحب ِہدایہ نے اِس کو علت کی حکمت کو بیان کرنے کے لیے ذکر کیا ہے جو یہ ہے کہ اُس وطی سے جو حرمت ثابت ہوتی ہے وہ اِس وجہ سے کہ وہ وطی بچے کے واسطہ سے جزئیت کا سبب ہے۔ اِس کا حاصل یہ ہے کہ وطی سے جو حرمت ثابت ہے تو اِس حکمت سے کہ وہ جزئیت کا سبب ہے اور یہاں حکمت سے مراد وہ اَثر نہیں جو حکم پر مترتب ہوتا ہے بلکہ مراد عقلی وجہ ہے۔ لہٰذا مطلب یہ بنے گا کہ وطی سے حرمت ثابت ہونے کی عقلی وجہ یہ ہے کہ وطی جزئیت کا سبب ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جہاں حکمت اور عقلی وجہ کا احتمال ہو یعنی وطی کے جزئیت کا سبب بننے کا احتمال ہو وہاں وطی کو حرمت ِ مصاہرت کی علت مانا جائے گا اور جہاں یہ امکان نہیں ہے وہاں اِس کو حرمت کی علت نہیں مانا جائے گا۔ مثلا آدمی اپنی بیٹی سے وطی کر بیٹھے تو چونکہ اِس کی بیٹی تو پہلے ہی سے اِس کا جزو حقیقی ہے اِس لیے وطی سے اُس میں جزئیت پیدا ہونے کا احتمال نہیں لہٰذا بیٹی سے وطی کی وجہ سے حرمت ِمصاہرت ثابت نہ ہوگی۔ اِسی طرح اگر بیٹا اپنی ماں سے زنا کر بیٹھے تو بیٹا تو اپنی ماں کا مِنْ کُلِّ الْوَجْہٍ جز و ہے اور یہ ممکن نہیں کہ اِس کی ماں اِس کا جزو بن سکے۔ لہٰذا اِس میں بھی حرمت ِمصاہرت ثابت نہ ہوگی۔ ہاں اجنبی عورت میں جزئیت کا احتمال ہے اِس میں حرمت مصاہرت ثابت ہوگی۔