ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
آپ کررہے ہیں بلکہ استدلال نہ کرنا ثابت ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ قرة العینین میں تحریر فرماتے ہیں معاویہ قبل از تحکیم ادعاء خلافت نہ کردہ بود و بیعت خلافت نگرفتہ ص ٤٧٨۔ یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے تحکیم سے پہلے دعوی خلافت ہی نہ کیا تھا اور لوگوں سے بیعت خلافت نہیں لی تھی۔ آپ نے لکھا ہے : '' اپنے آپ پر تنگ پاکر الخ'' ٭ ان باتوں کی تو کسی کذاب نے آپ کے ہی کانوں میں آکر خبردی ہوگی ورنہ شاہ عبد العزیز رحمة اللہ علیہ تو اِنہیں ہی صاحب ِ حق مانتے ہیں۔ شاہ صاحب کا اسم گرامی اِس لیے لے رہا ہوں کہ ائمہ اسلام طحاوی اور ابن ِ ہمام جیسے حضرات کی بات تو آپ کے نزدیک معتبر نہیں ہے اور شاہ صاحب کا نام نامی آپ نے شروع ہی سے استعمال کیا ہے۔ میں نے سوچا کہ آپ کو جو جواب دُوں وہ اِن ہی حضرات کے حوالوں سے دوں جن کے حوالے آپ نے خود دیئے ہیں تاکہ یا آپ مانیں یا ان حضرات سے بھی کٹ کر پوری طرح خارجیوں کی صف میں جا کھڑے ہوں۔ ذرا کلیجہ پہلے تھام لیں پھر پڑھیں۔ حضرت شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں : اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ' کی خلافت پر جو اجماع ہوا اور اس اجماع سے حضرت معاویہ خارج رہے تو اِس سے اِس اجماع میں کوئی حرج لازم نہیں آتا۔ اس واسطے کہ اُس وقت آپ کا اجتہاد اِس درجہ کا تھا کہ آپ اہل ِ حل و عقد میں شمار ہوسکتے اور علاوہ اِس کے خلافت حضرت علی کرم اللہ وجہہ' کی نص سے ثابت ہے اور نص کے مقابلہ میں اجتہاد کا ہرگز کچھ اعتبار نہیں۔ (فتاوی عزیزیہ ج١ ص ٢٠٣) اَب فرمائیے کہ حضرت شاہ عبد العزیز رحمة اللہ علیہ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اُس وقت تک باوجود اِن کے صحابی ہونے کے اِس درجہ کا مجتہد بھی نہیں مانتے کہ اہل ِ حل و عقد میں داخل ہوں۔ تو لامحالہ اِن سے اُوپر کے درجہ کے صحابی ہی اہل ِ حل و عقد میں اُس وقت شمار ہوتے ہوں گے جن کے بیعت ہوجانے کی وجہ سے اجماع کا لفظ شاہ صاحب نے فرمایا۔ اور آپ کہتے ہیں کہ : ''کسی ایک صحابی نے بھی سیدنا علی کے ہاتھ پر بیعت نہ کی''۔ یہ آپ نے کسی کتابچہ میں پڑھ کر یاد کرلیا۔ ذرا اِس کا حوالہ بھی لکھا ہوتا۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں :