ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
غرض اجنبی عورت کے ساتھ وطی پائی جائے یا دواعی وطی پائے جائیں اُس کی ماں بیٹی سے وہ مرد نکاح نہیں کرسکتا ۔اتنی بات طے شدہ ہے۔ محرموں کے ساتھ وطی یا دواعی وطی پائے جانے میں کیا حکم ہوگا ؟ ہم یہ بات پہلے ہی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ اِس شق میں ہمیں فقہائے حنفیہ سے اختلاف ہوا ہے اگرچہ یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہے لیکن اوّل تو ہم نے فقہائے حنفیہ کے اُصول اور اُن ہی کی تعلیل کی پیروی کی ہے پھر اُنہوں نے احتیاط کے پہلو کی طرف زیادہ توجہ کی ہے جو اُن کے دَور کے حالات کے زیادہ موافق تھا جبکہ ہمارے دَور کے بدلے ہوئے حالات میں وہ احتیاط اَب زحمت کا باعث بننے لگی ہے اِس لیے ہمارے اختلاف کو حالات کے تغیر پر محمول کیا جائے اور حاشا و کلا ہمارا اَیسا کوئی اِرادہ نہیں کہ ہم اُن کی تنقیص و تحقیر کریں بلکہ ہمارا خیال ہے کہ اُن حضرات کو اگر ہمارے جیسے حالات سے واسطہ پڑتا تو شاید وہ بھی اِسی طرح مسئلہ کو بیان کرتے۔ فقہائے حنفیہ کے پیش ِ نظر چونکہ احتیاط تھی لہٰذا اُنہوں نے سابقہ حدیثوں میں جن میں یہ ذکر ہے کہ مَنْ زَنٰی بِامْرَأَةٍ یعنی جو کوئی کسی عورت سے وطی یا دواعی وطی کرے اُس عورت کی ماں بیٹی اُس مرد پر حرام ہوجاتی ہیں۔ اِمْرَأَة سے اجنبی عورت نہیں بلکہ کوئی بھی عورت کو مراد لیا ہے خواہ وہ اجنبی ہو یا مرد کی محرم ہو۔ اور وہ کہتے ہیں کہ آدمی جب اپنی ساس سے جماع کرتا ہے تو ساس میں اِس کی جزئیت آجاتی ہے اور ساس کی تمام لڑکیاں چونکہ اُس کا جزو ہیں لہٰذا وہ سب اِس مرد کا بھی جزو بن جاتی ہیں اور نتیجہ میں مرد کی سالیاں اِس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہیں اور اپنی بیوی کے ساتھ اِس کا نکاح فاسد ہوجاتا ہے۔ اِسی طرح وہ کہتے ہیں کہ مرد جب اپنی بہو سے وطی یا دواعی وطی کرتا ہے تو وہ اِس کا جزو بن جاتی ہے اور اِس طریقہ سے اُس کی بہو اُس کے بیٹے کی بہن جاتی ہے اور اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی ہے۔ اور جو روایات و آثار ہم آگے ذکر کریں گے جن کا مضمون یہ ہے کہ جو شخص اپنی ساس سے زنا کر بیٹھے اُس پر اُس کی ساس کے ساتھ اُس کی بیوی بھی حرام ہوجاتی ہے اِن کو وہ محض تائید کے طور پر لیتے ہیں۔ پھر وہ احتیاط کے ضابطہ کے تحت محرم میں بھی دواعی وطی کو بھی وطی ہی کا حکم دیتے ہیں۔ یہ بات