ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
٭ آپ اِتنی جلدی کیوں برہم ہوئے جاتے ہیں۔ میں نے تو لکھا تھا کہ اگر یہ بات ایسے ہے تو یوں ہے۔ '' اگر '' حرفِ شرط ہے۔ اور میں نے مشروط لکھا تھا۔ اگر یہ بات نہ تھی تو فقط یہ لکھنا کافی تھا کہ ''میں نے نہیں لکھا بلکہ صاحب ِ مضمون نے لکھا ہے''۔ آپ نے لکھا ہے : '' تحریر فرماتے ہیں...... '' ٭ جو وہ تحریر فرماتے ہیں وہ یہ ہے : (١) اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ یا اَنَا دَارُالْحِکْمَةِ وَعَلِیّ بَابُھَا ۔ نہ تو صحیحین میں ہے اور نہ روایت ذکر کرنے والے اِس کی تصحیح کرتے ہیں۔ (٢) ترمذی نے اِس کی تحسین کی ہے جس میں لغیرہ ہونے کا بھی احتمال ہے اور ممکن ہے کہ کسی نے اِس کی تصحیح بھی کی ہو۔ کتابیں ١ ہمارے پاس موجود نہیں ہیں کہ اُن کا انکشاف کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ حدیث اُن روایات سے مقابل ہونے کی طاقت نہیں رکھتی جو بالاتفاق صحیح ہیں۔ پس بوقت ِ تعارض ساقط ٢ سمجھی جائے گی۔ (٣) اگر اس کے مفہوم میں تعارض ٣ نہ ہو تو البتہ قابل ِ اعتماد قرار دی جاسکتی ہیں مگر جب ہم لفظ مدینہ اور لفظ باب میں غور کرتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ مدینہ اُس جگہ کو کہتے ہیں جہاں بہت سے مکانات مجتمع ہوں۔ ایک مکان دس پندرہ مکانات والی آبادی کو ''مدینہ'' نہیں کہا جاتا۔ خود لفظ مدینہ کا لغوی مفہوم بھی اجتماع پر دلالت کرتا ہے۔ اِس سے مفہوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں بہت سے علمی گھر ہوں گے اور بہت زیادہ آبادی اُن کے اندر ہوگی۔ اور ہر دروازہ خو اہ مکان کا ہو یا شہر کا ،شہر کا اندرونی حصہ یا مکان کا اندرونی حصہ شمار نہیں کیا جاتا۔ اور کم از کم اتنا تو ضرور ہوتا ہے کہ من وجہٍ خارج ہو اور من وجہٍ داخل۔ اِس بناء پر اور صحابہ کرام اور بالخصوص ان کے خواص (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) اِس مدینة العلم کے اندر والے ہوں گے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بحیثیت ِ باب اندر داخل نہیں ہوگے۔ لہٰذا اُن کی فضیلت دیگر صحابہ پر ثابت نہ ہوگی۔ ہاں باہر سے آنے والوں یعنی غیر صحابہ پر ممکن ہے کہ فضیلت ثابت کی جائے کہ اُن کو اِس مدینہ میں بغیر توسط حضرت علی کرم اللہ وجہہ' داخل ہونا ممکن نہیں۔ اِس لیے اشکال کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔( باقی صفحہ ٣٧ ) ١ کیونکہ آپ نے (یعنی حضرت مدنی نے)یہ مکتوب جیل سے تحریر فرمایا ہے۔ ٢ یعنی اگر اس سے کوئی استدلال کرکے آپ کو خلیفہ اوّل ثابت کرنا چاہے تو یہ استدلال باطل ہوگا اور اعلمیت ابوبکر رضی اللہ عنہ وغیرہ جیسی صحیح روایات کے مقابلہ میں بھی نہیں لائی جائے گی۔ ٣ جیسے کہ حضرت رحمہ اللہ نے اِس سے آگے وہ شکلیں تحریر فرمائی ہیں جن میں تعارض نہیں ہوگا۔ (حامد میاں)