ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
اِسی طرح بہو میں بیٹے کی جزئیت پہلے ہی قائم ہے جو خود اپنا جزو ہے، تو بہو بھی اپنا جزو بنی۔ جب اِس میں جزئیت پہلے سے موجود ہے تو وہ اپنے تحقق میں سسر سے وطی کی محتاج نہیں رہی اور وطی سے جزئیت پیدا ہونے کا احتمال نہیں رہا لہٰذا سسر بہو سے وطی کرے تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ بیوی میں اپنی جزئیت وطی یا دواعی وطی سے ثابت ہوچکی۔ شوہر جب اپنی ساس سے وطی کرے گا تو ساس میں تو جزئیت آئے گی اور ساس کی اور بیٹیاں یعنی اُس کی سالیاں ساس کا جزو ہونے کی وجہ سے حرام ہوجائیں گی لیکن اپنی بیوی جزئیت اور حرمت ِ مصاہرت کی وجہ سے حرام نہیں ہوگی کیونکہ اُس میں اِس شخص کی جزئیت براہِ راست موجود ہے جو مضر نہیں تو بالواسطہ جزئیت کیسے مضر ہوگی۔ بالفاظِ دیگر جب بیوی میں جزئیت پہلے سے موجود ہے تو ساس سے وطی کرنے سے بیوی میں جزئیت پیدا ہونے کا احتمال نہیں ہے۔ اِس پر اگر کوئی کہے کہ ہم ایسی مثال پیش کرتے ہیں جہاں دو دفعہ جزئیت آتی ہے یعنی یہ کہ ایک شخص کی دو بیویاں ہیں ایک بڑی بالغ اور ایک چھوٹی دو سال سے کم عمر کی۔ اَب بڑی بیوی نے اپنی شیرخوار سوکن کو اپنا دُودھ پلادیا تو رضاعت سے قائم ہونے والی جزئیت سے شیر خوار بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ شیرخوار بچی قابل ِ شہوت ہی نہیں ہے لہٰذا جماع اور دواعی جماع سے حاصل ہونے والی جزئیت کا اِس میں سرے سے احتمال ہی نہیں ہے۔ البتہ محض رضاعت کی وجہ سے جزئیت پائی گئی اور اِس سے وہ شیرخوار بیوی شوہر پر حرام ہوگئی اور بڑی اِس وجہ سے حرام ہوگی کہ وہ شیرخوار بیوی کی ماں بن گئی اور یہ ہم اُوپر بتاچکے ہیں کہ ساس میں حرمت بیوی سے وطی یا دواعی وطی پر موقوف نہیں ہے۔ ماقبل کی بحث کا خلاصہ : -1 حرمت ِ مصاہرت صرف اُس وطی (جماع) سے آتی ہے جس سے جزئیت پیدا ہونے کا احتمال ہو۔ ایسا صرف اجنبی عورت میں ہے۔ ساس، بہو، بیٹی اور ماں سے وطی کرنے سے حرمت ِ مصاہرت نہیں آتی کیونکہ اِن میں وطی کی وجہ سے جزئیت پائے جانے کا احتمال نہیں ہے۔ -2 چونکہ حدیث میں اجنبی عورت سے دواعی وطی سے بھی اُس کی ماں بیٹی کی حرمت کا ذکر ہے اِس لیے فقہاء نے عقلی توجیہ کو وسعت دے کر دواعی وطی کو وطی کے قائم مقام کیا وہ بھی ہم تسلیم کرتے ہیں۔