ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
دُوسرا اعتراض : تم نے اُوپر کہا ہے کہ جیسے سفر کو مشقت کا مظنہ (موقع) سمجھ کر سفر کو قصر کے لیے علت بنالیا گیا ہے اِسی طرح جزئیت کے مظنہ کی وجہ سے وطی کو حرمت کا سبب بنایا گیا ہے اور سفر میں تو تم ایسی کوئی تفصیل نہیں کرتے تو وطی میں کیوں کرتے ہو۔ جواب : ہم کہتے ہیں کہ سفر شرعی کے ہر فرد میں مشقت کا احتمال موجود ہے جبکہ جیساکہ ہم نے مثالوں سے واضح کیا ہے ہر ہر وطی میں جزئیت کا احتمال موجود نہیں ہے اِس وجہ سے ہم وطی میں تفصیل کرتے ہیں کہ ایک وہ وطی ہے جس میں اُس کی وجہ سے جزئیت کے پائے جانے کا احتمال ہے اور دُوسری وہ ہے جس میں یہ احتمال موجود نہیں کیونکہ جزئیت پہلے سے موجود ہے۔ تیسرا اعتراض : تم نے حدیث کے الفاظ مَنْ زَنٰی بِامْرَأَةٍ میں بِامْرَأَةٍ کا ترجمہ اجنبی عورت سے کیا ہے حالانکہ حدیث میں اجنبی کی قید نہیں ہے بلکہ وہ مطلق ہے اور ہر عورت کو شامل ہے خواہ وہ اپنی منکوحہ ہو یا بیٹے کی منکوحہ ہو یا اپنی بیٹی ہو یا اجنبی ہو۔ جواب : ہم کہتے ہیں کہ حدیث میں اِمْرَأَة کو مطلق مان کر ہر قسم کی عورت مراد لینا درُست نہیں ہے کیونکہ مرد کسی عورت سے نکاح کرے تو نکاح ہوتے ہی اُس عورت کی ماں یعنی مرد کی ساس مرد پر حرام ہوجاتی ہے بعد میں مرد اپنی بیوی سے جماع کرے یا دواعی جماع کرے تو اِس سے ساس میں کوئی مزید حرمت نہیں آتی جبکہ حدیث میں اُس حرمت کا ذکر ہے جو جماع یا دواعی جماع سے آئے۔ اِسی طرح اگر معاذ اللہ بیٹا اپنی ماں سے بدفعلی کرے تو اِس سے اُس کی اپنی نانی اور اپنی بہن میں مزید حرمت نہیں آئے گی بلکہ حرمت تو پہلے سے موجود ہے۔ پھر فقہاء نے جو جزئیت والی جو حکمت ذکر کی ہے اُس سے بھی اِس کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ بیٹی اور ماں کا ذکر ہم اُوپر کرچکے ہیں کہ اِن میں وطی کی وجہ سے جزئیت پائے جانے کا احتمال ہی نہیں ہے۔