ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
آپ نے لکھا ہے : '' یا جاہل جو چاہیں الخ '' ٭ میں نے آپ کو جاہل کہاں لکھا ہے؟ آپ نے لکھا ہے : '' علماء دیوبند سے ناممکن ہے '' ٭ آپ اِس فکر میں کیوں دُبلے ہورہے ہیں؟ آپ نے لکھا ہے : '' یہ فقرہ ہی اَدبی لحاظ سے غلط ہے '' ٭آپ تو بڑے ادیب ہیں، اصلاح فرمادی ہوتی مگر سمجھ کر۔ کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ شروع خط سے اَب تک اِس مغالطہ میں رہے ہیں کہ میں کوئی اُردو کا محاورہ استعمال کررہا ہوں۔ اُردو میں یہ کہا جاتا ہے کہ '' یا یہ بات صحیح ہے اور اگر یہ بات صحیح نہیں ہے تو غلط ہے''۔ (یعنی بقول آپ کے باطل ہے) حضور! میں اُردو کی باتیں نہیں کررہا تھا۔ میں حدیث کی اِصطلاح عرض کررہا تھا کہ اُصولِ حدیث میں صحیح ورنہ غلط نہیں چلا کرتا بلکہ صحیح کے بعد حسن پھر ضعیف پھر جھوٹ اور باطل ہوتا ہے بلکہ حدیث ِ حسن کو بعض محدث صحیح کی قسم قرار دیتے ہیں۔ اسی تدریب الراوی میں ہے جس کا کہ آپ نے اپنے خط میں حوالہ دیا ہے کہ وَلِھٰذَا اَدْرَجَتْہُ طَائِفَة فِیْ نَوْعِ الصَّحِیْحِ ص ٩١ یعنی اِسی وجہ سے کہ اِس سے استدلال کیا جاتا ہے اِسے ایک جماعت نے صحیح کی قسم قرار دیا ہے۔ لیکن آپ مدینة العلم کو جو حدیث ِ حسن ہے۔ اپنا دل چاہنے کی وجہ سے ضعیف سے بھی نیچے باطل کے درجہ میں گرارہے ہیں۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ دُنیا بھر کے محدثین آج تک حدیث ِ حسن کو دلیل بناکر اِسے سچ تسلیم کرتے ہوئے اُس پر عمل کرتے آئے ہیں۔ اس سے آگے حدیث ِ ضعیف کا درجہ آتا ہے یعنی وہ حدیث جو کمزور درجہ کی ہو۔ پھر اِس سے آگے باطل کا درجہ آتا ہے۔ اسے حدیث ہی نہ کہیں تو بہتر ہے۔ وہ موضوع ہوتی ہے۔ یعنی کسی کی من گھڑت بات حدیث بناکر بیان کی جائے یا لکھدی جائے ایسی نام نہاد حدیثوں کو الگ کرکے مستقل کتابوں میں ہر زمانہ میں لکھا جاتا رہا ہے تاکہ لوگ دھوکہ میں نہ آئیں۔ حدیث انا مدینة العلم وعلی بابھا موضوع تو کیا ہوتی ضعیف بھی نہیں ہے۔ میرے الفاظ میں تعارض نہیں بلکہ آپ اُصول ِ حدیث کا مطلب نہیں سمجھ سکتے تھے اِسے لیے تعارض نظر آرہا تھا۔ آپ نے لکھا ہے : '' اُدھار کھائے بیٹھے ہیں الخ''