ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
دُوسری جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ''خلفاء ثلٰثہ کے بعد خلیفۂ رابع کے برابر قدر و منزلت علم و تقوے اور دین کے اعتبار سے کوئی نہ تھا تو اُس وقت بیعت منعقد ہوئی۔ اور اگر حضرت علی کی بیعت میں جلدی نہ کی جاتی تو اُن اوباشوں کے ہاتھوں جو مدینہ میں تھے وہ کچھ ہوتا کہ جس سے معاملہ ایسا پارہ پارہ ہوجاتا کہ پیوند بھی نہ لگایا جاسکتا۔ لیکن ان سے مہاجرین و اَنصار نے بشدت اصرار کیا اور حضرت علی نے اسے فرض جانا تو انہوں نے بات مان لی۔'' (العواصم من القواصم ص ١٤٣) اگر یہ کہا جائے کہ حضرت طلحہ و زبیر نے بالاکراہ بیعت کی ہے تو جواب یہ ہے کہ حَاشَا لِلّٰہِ اَنْ یَّکْرَھَا لَھُمَا وَلِمَنْ بَایَعَھُمَا کہ حاشا للہ کہ اِن پر جبر کیا گیا ہو یا جس نے بیعت لی اُس نے ایسی صورت کی ہو۔ (العواصم ص ١٤٤) اگر یہ کہا جائے کہ اُنہوں نے اِس شرط پر بیعت کی تھی کہ حضرت علی قاتلین ِ عثمان کو قتل کریں گے قُلْنَا ھٰذَا لَایَصِحُّ یعنی تو جواب یہ ہے کہ بیعت ِ خلافت میں ایسی شرط نہیں ہوا کرتی۔ یہ بات درُست نہیں بلکہ بیعت میں یہ کہا جاتا ہے کہ امیر المؤمنین حق فیصلے دیں گے (حکم بالحق) اور اِس کی صورت یہ ہوا کرتی ہے کہ خون کا مطالبہ کرنے والا دعویٰ پیش کرے۔ مدعٰی علیہ کو طلب کیا جائے اور دعویٰ دائر ہو کہ مدعٰی علیہ اِس کا جواب دے سکے اور گواہ پیش ہوں اور فیصلہ دیا جائے اور ویسے ہی اگر ہجوم کرکے کوئی بات امیر پر زور ڈالنے کے لیے یوں ہی کہی جائے (یا اَمیر دبائو ڈال کر کسی کے بارے میں یوں ہی مطلق بات کہے) یا بغیر تحقیق کے کسی کام کی کسی کی طرف نسبت کی جائے اور بات طرفین سے سُنے بغیر فیصلہ دلایا جائے فَلَیْسَ ذَالِکَ فِیْ دِیْنِ الْاِسْلَامِ یعنی یہ تو دین ِ اسلام میں ہے ہی نہیں۔'' (العواصم ص ١٤٦) اور اس سے بہت زیادہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے قرة العینین میں یہی بیان اور اَسناد سے اور زیادہ مفصل طرح تحریر فرمایا ہے۔ آپ نے لکھا ہے : '' اَلْخِلَافَةُ بِالْمَدِیْنَہِ وَالْمُلْکُ بِالشَّامِ بھی آپ کی نظر الخ '' ٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی مدینہ منورہ میں منعقد ہوئی۔ وہاں سے باہر جانا یا ٹھہرنا بغاوت وغیرہ کی وجہ سے ہوا ہے اور کسی کام سے امیر المؤمنین کا باہر جانا اگر اِس حدیث کے خلاف ہے تو حضرت عمر کے اَسفار کی کیا توجیہہ ہوگی؟۔