ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
''حضرت معاویہ ابن ابی سفیان صحابی ہیں اور آنجناب کی شان میں بعض حدیثیں بھی آئی ہیں اور آنجناب کے بارے میں علماء اہل ِ سنت میں اختلاف ہے۔ علماء ماوراء النہر اور مفسرین اور فقہاء کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ کی حرکات جنگ و جدل جو حضرت مرتضٰی علی کے ساتھ ہوئیں وہ صرف خطاء اجتہادی کی بناء پر تھیں اور محققین اہل ِ حدیث نے تتبعِ روایات کے بعد دریافت کیا ہے کہ یہ حرکات شائبہ نفسانی سے خالی نہ تھیں اور اِس تہمت سے خالی نہیں کہ جنابِ ذی النورین حضرت عثمان کے معاملہ میں جو تعصب اُمویہ اور قریشیہ میں تھا اُسی کی وجہ سے یہ حرکات حضرت معاویہ سے وقوع میں آئیں تو اِس کا غایت نتیجہ یہی ہے کہ وہ مرتکب کبیرہ کے اور باغی قرار دیئے جائیں الخ۔'' اس سے چند سطور کے بعد فرماتے ہیں '' حضرت معاویہ کے صحابی ہیں آپ کے حق میں آنحضرت ۖ کی شفاعت کی زیادہ اُمید ہے، اور یہ بھی زیادہ متوقع ہے کہ صاحب ِ حق یعنی حضرت مرتضٰی علی اپنا حق معاف فرمادیویں گے۔'' (فتاوی عزیزی ج١ ص ٣٧٣) اور ملا علی قاری نے مرقات جلد پنجم میں لکھا ہے معاویة رضی اللہ عنہ اخطأ فی الاجتھاد۔ ص ٥٨٣۔ ابن ِ تیمیہ رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں وجماھیر اھل السنة متفقون الخ۔ یعنی تمام کے تمام اہل ِ سنت اِس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ حضرت علی افضل ہیں حضرت طلحہ اورحضرت زبیر سے چہ جائیکہ معاویہ وغیرہ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ''حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دَورِ خلافت میں مسلمان دو گروہوں میں بَٹ گئے تھے، ایک گروہ نے تو اِن سے جنگ کی اور ایک وہ تھا جو اُن کے ساتھ تھا۔ تو خود حضرت علی اور اُن کے ساتھی دو جماعتوں میں افضل جماعت تھی جیسے صحیح حدیث میں رسول اللہ ۖ سے ثابت ہے کہ آپ نے اِرشاد فرمایا کہ مسلمانوں میں اختلاف کے زمانہ میں ایک جماعت خروج کرے گی اُس کو وہ (گروہ) جماعت قتل کرے گی جو دو گروہوں میں حق کی زیادہ حقدار ہوگی۔ تو اِس جماعت کو حضرت علی اور اُن کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ وہ حضرت معاویہ اور اُن کے ساتھیوں سے زیادہ حقدار تھے۔ لیکن اہل ِ سنت عمل اور علم کے ساتھ بات کرتے ہیں اور ہر ایک کو جتنا اُس کا حق ہے وہ دیتے ہیں۔'' (منہاج السنة ج٢ ص ١٩٦ مطبوعہ مصر ١٣٢١ھ) ۔اِس سے بہت پہلے ٥٣٦ھ میں قاضی ابوبکر ابن العربی المالکی نے ''العواصم من القواصم'' میں کہا ہے۔ ''حضرت عثمان شہید کردیئے گئے تو رُوئے زمین پر خلافت کا حقدار حضرت علی سے زیادہ کوئی نہیں تھا۔ (ص ١٩٤)