ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
عبد اللہ بن سلام آئے اور میں سفر عراق کے اِرادہ سے سوار ہوچکا تھا تو اُنہوں نے کہا کہ آپ عراق نہ جائیں اگر آپ عراق گئے تو تلوار سے شہید کردیئے جائیں گے۔ آپ نے فرمایا خدا کی قسم تم سے پہلے مجھے رسول اللہ ۖ نے یہی بتلادیا تھا الخ۔ (اِزالة الخفاء ص ٢٧٧) نیز آپ کی سمجھ کے مطابق اگر حضرت علی کی خلافت منعقد بھی نہ مانی جائے تو حضرت حسن کی خلافت بھی درُست نہ ہوگی۔ حالانکہ وہ حدیث ِصحیح کی رُو سے درُست ہے کہ آقائے نامدار ۖ نے اِرشاد فرمایا اِنَّ اِبْنِیْ ھٰذَا سَیِّد اَلْحَدِیْثِ۔ (بخاری) یا حضرت علی کی خلافت بھی درُست ماننی پڑے گی تاکہ حضرت حسن کی جانشینی درُست قرار پائے اور حدیث ِ صحیح کے اَلفاظ اور مفہوم سے حدیث ِ احمد کے مفہوم کا تعارض نہ ہو۔ ہاں لَااَرٰکُمْ فَاعِلِیْنَ سے حضرت معاویہ وغیرہم بھی مراد ہوسکتے ہیں کہ حضرت علی کی طرف سے جب اُن کے نام شام کی گورنری سے معزولی کا پروانہ پہنچا تو اُنہوں نے نامزد گورنر کو چارج دینے سے انکار کردیا۔ ورنہ حضرت علی صحیح راستہ پر چلتے اور سب کو چلاتے۔ یہ بدگمانی اُنہوں نے درُست نہیں کی اور بخاری شریف کی روایت سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت کا باغی ہونا ثابت ہے۔ وَیْحَ عَمَّار تَقْتُلُہُ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ بے چارے عمار کو باغی جماعت قتل کرے گی۔ (بخاری ص ٦٤) اِس لیے حضرت علی کا یہ فتوی درُست ہے کہ اِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَیْنَا ہمارے بھائیوں نے ہمارے خلاف بغاوت کردی ہے۔ نیز حقیقی اہل ِ حدیث علماء کا ہمیشہ سے یہ معمول چلا آرہا ہے کہ وہ حدیث ِ مرفوع کا مطلب علماء متقدمین کے اَقوال کی روشنی میں سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے کیا سمجھا ہے اور اُنہوں نے اپنے اساتذہ سے کیا سُنا ہے اور راوی حدیث نے خود بھی اس پر عمل کیا ہے یا نہیں اور اُسی کے مطابق فتوی دیا ہے یا اُس کے خلاف فتوی دیا ہے یہ بہت ہی دقیق کام ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ''صحیح بخاری'' میں اپنے اِسی طرزِ عمل کو اختیار کیا ہے۔ شروع ہی میں اِس کی مثال دیکھ لیجیے۔ کتاب الایمان کے پہلے باب میں کتنے اَقوال اور آیات پیش کی ہیں اور پھر باب سے متعلق حدیث صرف ایک ہی لائے ہیں۔ آپ اگر اِس طریقہ پر چلیں گے تو صحیح معنٰی میں آپ اہل ِ حدیث ہوں گے اور یہی سلفی طرز ہے اور اَسلم ہے۔ کیا اس حدیث سے اس زمانہ میں کسی نے یہ استدلال کیا ہے جو