ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
طور پر معلوم تھا اور اِس کا علم رسول اللہ ۖ ہی سے آپ کو حاصل ہوا تھا کیونکہ اُمورِ ظنیہ میں حد نہیں لگائی جایا کرتی ہے اور تفضیل ِشیخین کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ' نے مختلف اَوقات میں مختلف کلمات اِرشاد فرمائے ہیں جو اِن سے اُن کے اَصحاب میں تقریبًا اَسّی حضرات نے سُنے اور آگے روایت کیے ہیں۔ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ' کا اِن حضرات سے مقابلہ اور موازنہ کرنا ہی دُرست نہیں ہے۔ البتہ اِن حضرات کے بعد قرآنِ پاک کے ترتیب دینے میں اور بکثرت تلاوت کرنے میں حضرت عثمان غنی کو ان سے افضل مانا گیا ہے اور حضرت علی کو روایت فتوی اور جہاد میں ان سے افضل مانا گیا ہے۔ ان دونوں حضرات میں باہم افضلیت میں خود علماء اہل ِ سنت کے دو قول ہیں جن میں مذکورہ بالا طریق پر تطبیق دی جاسکتی ہے۔ رہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت، تو خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ' کو اپنی خلافت کے بارے میں رسالت مآب ۖ کی زبانِ مبارک سے علم تھا۔ یہ روایت جو آپ نے ذکر کی ہے امام احمد کی ہے اور امام احمد ہی کی ایک اور روایت ہے جس کے آخر میں ہے فَقَالَ عَلِیّ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ نے مجھے بتلارکھا ہے کہ میری وفات اُس وقت تک نہ ہوگی جب تک کہ مجھے امیر نہ بنادیا جائے پھر میری ڈاڑھی میرے سر کے خون سے رنگین نہ ہو۔ اور طبرانی اور ابونعیم نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اِرشاد فرمایا کہ یقینًا تمہیں امیر و خلیفہ بنایا جائے گا اور یقینًا قتل کیا جائے گا اور یہ ڈاڑھی سر کے خون سے تر ہوگی۔ شاہ ولی اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے غنیة الطالبین کی روایت کو بحسب المعنٰی صحیح قرار دیتے ہوئے نقل فرمایا ہے جس میں ہے کہ ''حضرت علی مرتضٰی نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ دُنیا سے اُس وقت تک رُخصت نہیں ہوئے کہ جب تک آپ نے ہمیں یہ نہ بتلادیا کہ آپ ۖ کے بعد امارت ابوبکر کی ہوگی پھر عمر کی پھر عثمان کی پھر میری۔ تو میری خلافت مجتمع نہ رہے گی۔ حاکم کی ایک روایت میں ہے کہ مجھے رسول اللہ ۖ نے خوب بتلادیا تھا کہ خلافت کے بعد قوم مجھے ناپسند کرنے لگے گی۔ (اِزالة الخفاء ص ٣٧٥) ابو الاسود الدئلی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ اُنہوں نے فرمایا کہ میرے پاس