ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
|
میں نے اللہ سے سوال کیا کہ وہ تم کو مقدم کردے اور اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کے سوا کسی دُوسرے کو مقدم کرنے سے انکار فرمادیا۔( فتاوٰی عزیزی ج١ ص ٣٧٢) آپ نے لکھا ہے : '' نبی اکرم ۖ کے فرمودات '' ٭ جی ہاں رسول اللہ ۖ کے سارے اِرشادات جمع کریں پھر نتیجہ نکالیں۔ آپ نے لکھا ہے : '' طحاوی اور مسامرہ کے اَقوال '' ٭ نہیں یہ اُن کے اَقوال نہیں بلکہ عقائد جمہور اہل ِ سنت ہیں جیسے کہ عنقریب منہاج السنہ کی عبارت بھی نقل کروں گا بلکہ اِن کے مقابلہ میں آپ کا قول ایسا ہے جیسے شیعوں کا قول خَلِیْفَتُہ بِلَافَصْلٍ ۔ آپ نے لکھاہے : '' کیا وَلَااَرٰکُمْ فَاعِلِیْنَ پر غور الخ '' ٭ آپ کی نظر حدیث کے آخری حصہ پر کیوں پہنچی۔ پہلے حصے سے بے سوچے سمجھے ہی گزرگئے۔ اگر حدیث کا مطلب وہی ہے جو آپ اور آپ کے ہم مشرب خوارج سمجھے ہیں تو آپ نے اپنے آپ کو حضرت علی سے زیادہ سمجھدار خیال فرمارکھا ہے، یا یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ باوجودیکہ حضرت علی خود ہی یہ روایت بیان بھی کررہے ہیں اور اِس کا مطلب بھی سمجھ رہے ہیں مگر معاذ اللہ خلافت و دُنیا کی طلب میں اس فرمان پر عمل نہیں کررہے۔ ذرا مہربانی فرماکر اِس حدیث کی سند بھی اِرشاد فرمائی ہوتی اور یہ کہ یہ حدیث حضرت علی نے کس زمانہ میں لوگوں کو بتلائی۔ اگر اپنے دَورِ خلافت میں بتلائی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اُن کے اِس اِرشاد کو سُنانے کا مطلب یہ تھا کہ لوگ اِس سے بغاوت و نافرمانی نہ کریں کیونکہ لَااَرٰکُمْ فَاعِلِیْنَ یعنی ''میرے خیال میں تم لوگ ایسا نہیں کروگے'' اگر بطریق ِ ملامت نہ اِرشاد فرمایا ہوتا تو حضرت علی اِس حدیث کو کیوں سُناتے اور اگر اُنہوں نے یہ اِرشادِ پاک پہلے سُنایا ہے تو اِس کا تعلق دَورِ صدیق ِ اکبرسے ہوگا جیسا کہ میں اُوپر بیان کرچکا ہوں اور یہی بات صحیح ہے اِس لیے حضرت علی کا مقابلہ حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما سے کرنا ہی نہ چاہیے کیونکہ حضرت علی نے بہت زیادہ روایتوں میں شیخین کی فضیلت پر شدت سے زور دیا ہے۔ حضرت علی سے صحیح روایت میں آیا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا لَایُفَضِّلُنِیْ اَحَد عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ اِلاَّجَلَدْتُّہ حَدَّ الْمُفْتَرِیْ۔ یعنی جو شخص مجھ کو حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دے گا میں اُس کو اِتہام لگانے والے کے برابر کوڑے لگائوں گا۔ اُمورِ ظنیہ میں ایسی سزاء نہیں ہوتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اِنہیں قطعی