ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
مکارہ جھیلتا ہے اور معلوم ہے کہ جس قدر اِس کو عشق تام ہو گا اُسی قدر توجہ الی الغیر میں تکلیف اور گرانی ہوگی ۔ ٭ اہل ِتحقیق کہتے ہیں کہ قلب عالم ِامر ہے۔ یعنی قلب حقیقی جسم انسانی میں رُوح جس کا مرکز قلب ہے یہ ہی عالم ِامر کی چیز ہے باقی جملہ اَشیاء عالم ِخلق کی ہیں۔ عالم ِخلق تجلیاتِ ذاتیہ کا متحمل نہیں اِس لیے فرمایا گیا ہے وَلٰٰکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہ فَسَوْفَ تَرَانِیْ (الاٰیة) قلب حقیقی تجلیات ذاتیہ کا متحمل ہے باقی جسم میں تجلیات ِظلیہ ہی کا مظاہر ہ ہوگا۔ ہم کو مراقبہ میں تجلیاتِ ذاتیہ کو اپنی طرف متوجہ کرنا اور جذب کرنا ہے۔ ٭ ہماشمامیں کمزوریاں ضرور ہیں۔ مشاجرات ِصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اِس کی شاہد ِعدل ہیں۔ بہر حال ایسی کمزوریاں اپنے سے حتی الوسع دُور کرنا چاہیے اور دُوسروں پر نظر نہ ڈالنی چاہیے بلکہ اُس کے وصفِ کمال کو تلاش کرنا چاہیے، اگر مل جائے تو اُس کی قدر کرنی چاہیے۔ ٭ اِنسان ممکن بالامکانِ الخاص ہے اور اصل ممکنات کی عدم ہے اور عدم ہی تمام شرور ونقائص کا مبداء اور منشا ہے۔ بنا بریں ممکنات کانقص طبعی اوراصلی ہے۔ البتہ کمال موہبی ہے وہی قابل توجہ ہے ،اِس لیے کبھی نقائص سے دلگیر اور متاثر نہ ہوں ۔ ٭ جملہ اُمور میں نیت کو دخل ہے جو کہ اَعمال کے لیے بمنزلہ رُوح ہے اور عمل ظاہرشبح ہے۔ اگر شبح مقصد سے مناسبت رکھتاہے اور نیت اِبتدائی لوجہ اللہ بالخلوص ہے تو وہ عمل صحیح ہے اگر چہ بعد میں کوئی شائبہ ریا یا سمعہ کا پیش آگیا ہو۔ اور اگر نیت اِبتدائی توجہ الغیر ہو تو اُس عمل کے شیطانی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ٭ صحت ِنماز موقوف ہے نماز کی شرائط ،فرائض اور واجبات کے اَدا کرنے پر موانع ِصحت مثل نجاست ِظاہری، حدث وغیرہ کے دُور کردینے پر اِس صورت میں نماز صحیح ہو جائے گی اور شریعت کا مطالبہ اَدائے فریضہ کا ساقط ہو جائے گا اور قبولیت ِنمازخدا وند ِکریم کے فضل پر موقوف ہے ۔ ٭ ممکن ہے نماز بالکل صحیح اور مکمل اَدا کی جائے اور اُس بے نیازمالک الملک کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف نہ حاصل ہو،اور ممکن ہے کہ وہ اکرم الاکرمین کسی ناقص سے ناقص نماز کو اپنی بارگاہ میں ہزاروں اور کروڑوں مکمل نمازوں سے بڑھا دے۔ مگر حسب ِحکمت ورَحمت عادتِ خداوندی یہی ہے کہ اگر بندے نے اپنی سکت بھر تمام شروط واَرکان وغیرہ کی رعایت کی اور جان بوجھ کرکوئی خلل نہ ڈالا ہو تو اُس کو ضرور قبول فرمائے گا (جاری ہے)