ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
ہیں کہ عامر شہید کا استقبال آقا ۖ نے بذات خود کیا ہے۔ بہت لمبا خواب ہے جو میں مختلف صحافیوں کو سنا چکا ہوں۔ سوال : آپ اُمت ِمسلمہ کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟ جواب : میرا پیغام اور میری اہلیہ جوکہ فالج کی مریضہ ہیں صرف ایک ہی ہے کہ اُمت کے جوان جب بھی کسی شاتم ِرسول ۖ کو دیکھیں تو عامر شہید کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے ضرور وَار کریں تاکہ مغرب کو پتا چلے کہ ہماری دینی حمیت ابھی زندہ ہے۔ سوال : کیا اب بھی حکومت کی طرف سے کچھ دبائو ہے؟ جواب : ابھی حکومت کو ہراساں کرنے اور دبائو میں لانے کی کیا ضرورت ہے۔ حکومت نے اپنی بات منوالی ہے عامر کو اُدھر گوجرانوالہ میں دفن کردیا ہے۔ میں نے کہا چلو کوئی بات نہیں وہاں پر بھی تو سنا ہے اُس کے چچا منظور رہتے ہیں اور ساتھ ہی گائوں میں آپ کی دوبیٹیاں گھڑی اعوان میں رہتی ہیں چلو بہنیں اپنے اکلوتے شہید بھائی کی قبر پر آجایا کریں گی اور بھائی عامر کا آبائی علاقہ بھی تو یہی ہے۔ میری بات کو کاٹتے ہوئے بھائی عامر شہید کے چچا منظور بولے بیٹا میری بھتیجیوں کو زبردستی راولپنڈی سے یہاں لایا گیا اور اُن کو بھی ہراساں کیا گیا ۔یہ مسلم ملک ہے کہ ایک شاتم ِرسول پر وار کرنے والے ثانی غازی علم الدین کے بوڑھے والدین اور بہنوں سے یہ سلوک کیا جارہا ہے۔ اب اس کا جواب میرے پاس سوائے خاموشی کے کچھ نہیں تھا، کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے کہا بزرگو !کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ بولے پوچھو بیٹا کیا پوچھنا چاہتے ہو۔ سوال : چچا جان آپ کتنے بھائی ہیں؟ جواب : ہم کل پانچ بھائی ہیں : بشیر چیمہ، منظور چیمہ، اقبال چیمہ (مرحوم) عصمت اللہ چیمہ اور میں۔ ہمارا ایک بھائی اقبال فوت ہوچکا ہے۔ سوال : آپ کے بیٹے اور بیٹیاں کتنی ہیں؟ جواب : میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا عامر شہید تھے جو اَب میرا ہی نہیں بلکہ پوری اُمت مسلمہ کا فرزند بن چکا ہے۔