ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ علم قراء ت میں بھی یہی حال ہے کوفہ کا، علم حدیث میں بھی یہی حال ہے۔ امام بخاری اور کوفہ : امام بخاری کہتے ہیںلَا اُحْصِیْ مَا دَخَلْتُ الْکُوْفَةَ میں یہ نہیں شمار کرسکتا کہ میں کوفہ کتنی دفعہ گیا ہوں حدیثیں لینے کے لیے۔ تو وہاں سے جو فقہی مسلک چلا ہے امام اعظم رحمةاللہ علیہ کا وہ بھی سب سے زیادہ بڑا، ساری دُنیا میں وہی پھیلا۔ امام اعظم کی اخذ کردہ قراء ت : جو قراء ت امام اعظم رحمة اللہ علیہ نے لی وہ قراء تِ حفص ہے۔ یہ قراء ت ساری دُنیا کی ہے۔ ہرجگہ سے جہاں بھی سنیں آپ یہی سننے میں آئے گی۔ تو یہ روایت ِحفص ہے، یہ بھی کوفہ ہی کی ہے۔ قرا ئٰ ت ِمتواترہ اور کوفہ : تو قاریوں میں سبعہ (سات) ہیں۔ اُن میں تین کوفہ کے ہیں اور قراء ت ِعشرہ میں چار صرف کوفہ کے بن جاتے ہیں۔تو یہ شرف دُنیا میں کسی شہر کو حاصل نہیں ہے بلکہ بعض ملکوں کو بھی حاصل نہیں ہے۔ ملکِ مصر میں تین سو صحابہ کرام تشریف لے گئے ہیں حالانکہ وہ ملک ہے اور یہ ایک شہر ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے کوفہ کا علمی مقام تو وہ بہت بلند بن جاتا ہے۔ فقہ حنفی کی بنیاد : اور امام اعظم رحمة اللہ علیہ نے فقہ کی بنیاد جن لوگوں پر رکھی ہے وہ تین حضرات زیادہ ہوئے ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود، حضرت عمر فاروق، حضرت علی کرم اللہ وجہہ ورضی اللہ عنہم۔یہ حضرات بنتے ہیں تین۔ اِن پر مدار ہے فقہ حنفی کا۔ اِنہوں نے جو کیا جو بتلایا جو روایت سنائی اُس کو مقدم رکھا گیا اور اِس طرح سے روایات اُن کے پاس سب قسم کی جمع ہیں تو کوفہ میں جس نے علم حاصل کیا ہے اُس میں علمی تشنگی نہیں تھی جس طرح وہ سیراب ہوا ہے کسی اور جگہ جانے والے اِس طرح سیراب نہیں ہوئے۔ مثلاً امام اعظم رحمة اللہ علیہ، اِن کا یہ علم کوفی ہی ہے سارا۔ اِن کے شاگرد ہیں امام ابویوسف رحمة اللہ علیہ اِن کا سارا علم کوفی ہی ہے۔ امام محمد رحمة اللہ علیہ جو امام اعظم رحمة اللہ علیہ کے بھی شاگرد ہیں امام ابویوسف سے بھی کچھ پڑھا ہے اِنہوں نے ،اِن کے بھی شاگرد ہیں اُن کا علم