ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
غازی عامر چیمہ شہید کے والد پروفیسر نذیر چیمہ کاانوار مدینہ کے لیے خصوصی انٹرویو ( محمد آصف جالندھری ،متعلم جامعہ مدنیہ جدید ) یوں تو چہرہ پر نگاہ پڑتے ہی پائوں جم گئے تھے کیونکہ ایسے چہرے کئی بار زندگی میں دیکھنے کو ملے ،وہی علامات ماتھے پہ دکھائی دیں جو اکثر شہداء کے والدین سے ملاقات کے وقت دیکھنے میں آئی ہیں۔ تقریباً بیسیوں شہداء کے والدین سے ملاقات کرچکا ہوں گفتگو کرچکا ہوں انداز ِگفتگو دیکھ چکا ہوں لیکن کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ شہید کا والد ہو یا والدہ، بھائی ہو یا بہن، کم از کم اور کچھ نہیں تو خاموشی کے ساتھ تراشے ہوئے ہیرے کی طرح آنسوئوں کی لڑیاں تو ضرور بہاتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ دُنیا جانتی ہے کہ جواں مرگ لخت جگر کی جدائی کے وقت بڑے بڑے اشجع بہادر باپ بھی دیمک زدہ درختوں کی طرح زمین پر گرپڑتے ہیں لیکن آج دستور ِزمانہ بدلہ بدلہ دکھائی دے رہا تھا۔ ایسے موقعوں پر لوگ تو ضرور آتے ہیں اور ملاقات کے وقت شہداء کے اعز اء و اقارب سے شہید کے لیے بلندی درجات اور اُس کے واسطہ سے اپنی مغفرت بھی ضرور طلب کرتے ہیں لیکن آج ہر آنے والا مسلمان اس ضعیف العمر پروفیسر نذیر چیمہ صاحب سے بغل گیر ہورہا تھا اور'' مبارک ہو چیمہ صاحب، مبارک ہو چیمہ صاحب ''کا جملہ ہی بار بار سنائی دے رہا تھا۔ پھر رشتہ دار کہہ رہے تھے پروفیسر صاحب بیٹھ جائو تھک جائوگے۔ بیٹھ کر مصافحہ کرلو، کچھ کہہ رہے تھے کرسی لے آئیں لیکن پروفیسر صاحب کے اندازِ ملاقات کو دیکھ کر اور چہرہ کی مسکراہٹ دیکھ کر لوگ بھی مسلسل بغل گیر ہورہے تھے۔ میں اِس انتظار میں تھا کہ کب لوگوں کا اژدہام ختم ہو اور کچھ سوالات کروں۔ کافی وقت گزرگیا بالآخر لوگوں کا اژدہام تو ختم نہ ہوا لہٰذا ہم کچھ ساتھیوں نے مل کر دروازہ لاک کردیا اور پروفیسر صاحب کو پکڑکر بٹھادیا اوربولا کہ بزرگو! بیٹھ جائو تھک جائو گے تھوڑی دیر آرام فرمالو، اصل میں تو ہم نے کچھ سوالات کرنے تھے۔ سوچا کہ ویسے تو نہیں چلو اِسی بہانہ سے سہی۔ پروفیسر صاحب بیٹھ گئے۔ ہم نے دبانا شروع کردیا۔ اب میں اور میرے ساتھی مسلسل اِس ساٹھ سالہ