ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
مَا اَنْکَرْتَ مِنَّا مُنْذُ یَوْمٍ عَھَدتَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ مَااَنْکَرْتُ شَیْئًا اِلَّااَنَّکُمْ لاَ تُقِیْمُوْنَ الصُّفُوْفَ۔(بخاری ص١٠٠ج١ ) ''جناب رسول اللہ ۖ کے زمانہ میں آپ نے جو کچھ حال دیکھا تھا اُس سے اب آپ نے کون سی چیز ایسی دیکھی ہے جو اُوپری (اجنبی) لگی ہو۔ اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے کوئی چیز اجنبی (تبدیل شدہ اور متغیر) نہیں دیکھی سوائے اِس کے کہ تم لوگ صفیں سیدھی نہیں رکھتے''۔ آپ کے سامنے اہل عرب کے رواجی مشروب نبیذکے پھر اِس سے نشہ اور اِس پر حد جاری کیے جانے کے واقعات آئے۔ نشہ ذراسی غفلت سے بھی ہوجاتا رہا ہے اور غلط نیت سے بھی۔پھر یہ بھی سامنے آگیا کہ شام میں عملی کوتاہیاں بڑھتی گئی ہیں اور مدینہ منورہ اِس قسم کی خرابیوں سے تادیر محفوظ رہا ہے ۔اس لیے وہ لوگ یزید کو نہیں چاہتے تھے۔ وہ یزید کی جانشینی میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق نہیں تھے، پھر اُنہوں نے اپنے وفد سے جب یزید کی حالت کی خبریں سنیں تو اُنہوں نے اِس کی بیعت ہی توڑدی اور تمام بنو اُمیہ کو جن میں یزید کا گورنر اور مروان بھی تھا مدینہ پاک سے ہی نکال دیا جس پر یزید کو بے حد غصہ آیا۔ پھر واقعہ حرہ پیش آیا۔ ضمیمہ نمبر ٢ ........ قُتِلَ الْحُسَیْنُ بِسَیْفِ جَدِّہِ یہ ناصبی لوگوں کی باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی حیات میں بعض مصالح کے پیش نظر آئندہ منصب امارت کے لیے لوگوں سے رائے لے کر نامزد کرنا چاہا لیکن بہت سے لوگ یزید کے خلاف تھے، اتفاق نہ ہوسکا۔ مدینہ منورہ میں اُس وقت تک مروان ہی امیر تھا۔ اس نے جمعہ کے خطبہ میں یزید کا ذکر کیا جس پر حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اعتراض کیا۔ اُس نے کہا کہ'' پکڑلو اِنہیں'' لیکن وہ اپنی ہمشیرہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلے گئے۔ اِس واقعہ کا یہ حصہ تو بخاری شریف کی جلد دوم میں سورۂ احقاف کی تفسیر میں ہے۔ لیکن بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت عبد الرحمن نے فرمایا کہ '' ھِرْ قَلِیَّة '' یہ طرز تو اُن لوگوں کا ہے جنہیں مسلمانوں نے شام سے نکالا۔ اب شام میں دارالخلافہ ہے تو ان لوگوں کا طرز کیوں اختیار کیا جارہا ہے (یہ ھِرَقَلْ کا طریقہ تھا) کہ باپ کے بعد بیٹے کی جانشینی پر زور دیا جائے۔ بالکل اسی طرح اور بھی بہت سے صحابۂ کرام کو یہ طریقہ پسند نہیں آیا۔ ان میں حضرت ابن زبیر اور حضرت