ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
غازی نے گرج دار آواز میں کہا ''میں مسلمان ہوں، ناموسِ رسالت کا تحفظ میرا فرض ہے، میں اپنے آقا کی توہین ہرگز برداشت نہیں کرسکتا''۔ پھر راج پال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ''اس نے میرے رسول کی شان میں گستاخی کی تھی اِس لیے میں نے اِس پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن یہ کم بخت اُس وقت میرے ہاتھ سے بچ نکلا''۔ اقرار جرم کے بعد غازی خدابخش کو سات سال قید سخت سنائی گئی۔ غازی عبد العزیز : اِس واقعہ کے چند دن بعد ایک اور مرد غازی عبد العزیز نے جو افغانستان سے اپنے سینہ میں اِس دشمن اسلام راج پال کے خلاف غصہ کی آگ لے کر لاہور پہنچا تھا۔ ١٩اکتوبر ١٩٢٧ء کی شام راج پال کی دکان پر آیا۔ اتفاقاً اُس وقت راج پال کا ایک دوست سوامی ستیانند بیٹھا تھا جسے غازی عبد العزیز نے شاتم رسول سمجھ کر چاقو سے حملہ کرکے زخمی کردیا، پولیس نے جائے واردات پر پہنچ کر غازی عبد العزیز کو گرفتار کرلیا۔ عدالت نے اس مرد مجاہد کو بھی وہی سزادی جو غازی خدا بخش کو دی گئی تھی، جسے بھگت کر یہ دونوں غازی جیل سے سروخرو ہوکر نکلے۔ غازی علم الدین شہید کا راج پال پر حملہ : علم الدین ایک محنت کش نجار ''طالع مند'' کا بیٹا تھا۔ جب علم الدین پیدا ہوا تو اُس کی ماں کی گود میں دیکھ کر ایک فقیر نے بشارت دی کہ تم لوگ بڑے ہی خوش نصیب ہو کہ ایسا نیک بخت بچہ تمہارے گھر پیدا ہوا ہے۔ علم الدین نے قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم اپنے محلہ کی مسجد میں حاصل کی جو اُس زمانہ میں بازار ِسر فروشاں کے نام سے مشہور تھا۔ جب یہ بچہ ذرا بڑا ہوا تو باپ نے جلدی اِسے اپنے ساتھ کام پر لگایا، جس میں اُس نے بڑی جلدی مہارت حاصل کرلی۔ علم الدین کا ایک بچپن کا ساتھی عبد الرشید تھا جسے سب پیار سے ''شیدا'' کے نام سے پکارتے تھے۔ شیدا کے والد کی دکان مسجد وزیر خان کے سامنے واقع تھی۔ ایک دن دونوں دوست گھر سے شام کے وقت جب مسجد وزیر خان پہنچے تو وہاں ایک جلسۂ عام میں شیطان راج پال کے خلاف تقریریں ہورہی تھیں جس میں یہ اعلان ہورہا تھا کہ مسلمان اپنی جانیں قربان کردیں گے لیکن اِس مردود راج پال کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ یہ تقریر سن کر دونوں دوست تڑپ اُٹھے۔ گھر آکر علم الدین نے اپنے والد طالع مند سے پوچھا :