ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
قسط : ٥ اَللَّطَائِفُ الْاَحْمَدِےَّہ فِی الْمَنَاقِبِ الْفَاطِمِےَّہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ( حضرت علامہ سےّد احمد حسن سنبھلی چشتی رحمة اللہ علیہ ) (١٧) عَنْ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلُّ بَنِیْ اُنْثٰی فَاِنِّیْ اَنَا عَصَبَتُھُمْ لِاَبِیْھِمْ مَاخَلَا وُلْدِ فَاطِمَةَ فَاِنِّیْ اَنَا عَصَبَتُھُمْ وَاَنَا اَبُوْھُمْ (اخرجہ الطبرانی) ''حضرت عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ۖ نے ہر عورت کے بیٹے کا عصبہ اُن کا باپ ہوتا ہے سوائے اولادِ فاطمہ کے کہ میں اُن کا عصبہ ہوں اور اُن کا باپ ہوں۔'' معنی یہ ہیں کہ ہر عورت کی اولاد نسبت کی جاتی ہے اپنے باپ کی طرف مگر اولاد ِفاطمہ میری طرف منسوب ہے اور میں اُن کا عصبہ اور باپ ہوں۔ قاعدہ یہ ہے کہ ہر عورت کی اولاد اپنے باپ اور باپ کی طرف نر رشتہ داروں مثل دادا وغیرہ کی طرف نسبت کی جاتی ہے مگر اولادِ فاطمہ میری طرف منسوب ہے گویا وہ میری اولاد ہے اور میں اُن کا باپ ہوں پس وہ اولاد آپ ۖ کی طرف اِسی وجہ سے نسبت کی جاتی ہے اور آپ کی وجہ سے حضرت فاطمہ کی اولاد بولی جاتی ہے اگرچہ فی الحقیقت اُن کے باپ حضرت علی ہی ہیں۔ بیان سے خصوصیت اور بزرگی اولاد حضرت فاطمہ کی جو شامل ہے حضرت فاطمہ کی بزرگی کو کس درجہ ثابت ہوتی ہے کہ اُن کو حضور ۖ نے خلافِ ِقاعدہ اپنی طرف نسبت کرکے اِس قدر شرف مرحمت فرمایا جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی اور یہ خصوصیت ہے حضرت فاطمہ کی کہ اُن کی اولاد اپنی ماں کی طرف نسبت کی جاتی ہے نہ کہ اپنے باپ کی طرف اور تقریر ذیل جو نہایت مفید ہے اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عموماً اولاد باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے اور شریعت کا بھی یہی حکم ہے حتی کہ اگر باپ شریف قوم کا ہو اور ماں رزیل قوم کی تو اولاد شرفاء میں شمار ہوتی ہے اِلَّا اَوْلَادُ الْمَمْلُوْکِ