ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
ہیں کہ مجھے تو اِسی نمونہ کا بنوادو کچھ ہی ہو۔ اب وہ بے چارہ اِن کے اصرار پر دلجوئی بھی کرتا ہے۔ آخر وہ کہتا ہے کہ تم جیتی میں ہارا۔ اور اِس پر بھی بس نہیں ،اگلے مہینے میں اور کوئی نمونہ سامنے آگیا تو یہی کہتی ہیں کہ اب یہ نمونہ ہونا چاہیے۔ غرض ہر چیز پر اِن کا عشق ہے بس یہی چاہتی ہیں کہ جیسی چیز اوروں کے پاس ہے ویسی ہی ہمارے پاس ہوجائے۔ شوہر کی ساری کمائی اِن کی زیب و زینت ہی میں صرف ہوتی ہے اور یہ ساری مذکورہ خرابیاں حب ِجاہ اور حب ِمال کی ہیں۔ مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی۔ صرف فرق یہ ہے کہ مردوں میں کسی قدر ضرورتوں پر نظر ہے اور عورتوں میں ضرورتوں پر نظر نہیں۔ (خیر الاثاث للاناث) تصنع و تکلف و ریاکاری : اصل مرض اپنے کو بڑا سمجھنا اور اِس کی اصل ہے خدا کو بڑا نہ سمجھنا۔ ساری خرابی اِسی کی ہے۔ پس اِس کا علاج کرو نیز اِس سے ایک اور مرض پیدا ہوتا ہے یعنی زیب و زینت کا حال۔ عورتوں کی پرورش ہی زیب و زینت میں ہوتی ہے۔ ان کے اندر ایک خاص شان زیب و زینت کی ہوتی ہے جس میں اِن کی ساری عقل صرف ہوجاتی ہے، آگے علوم و کمالات تک رسائی نہیں ہوتی۔ زینت میں عورتوں کا مزاج یہ ہے کہ خوب زینت کرنا چاہیے۔ کوئی مہمان آجائے تو بڑے بڑے سامان ہوتے ہیں۔ خاصدان جو مہمان کے سامنے ایک مرتبہ گیا تھا دوسری دفعہ پان اس میں نہ جانا چاہیے بلکہ دوسرا خاصدان ہونا چاہیے۔ صرف یہ بات ظاہر کرنے کے لیے کہ ہمارے ہاں خاصدان اور بھی ہیں۔ پھر ایک دفعہ تانبے کا ہو تو دوسری دفعہ اسٹیل وغیرہ کا ہو۔ اسی طرح اور چیزوں کا اندازہ کرلیجئے۔ روزانہ تو گھر کُوڑے سے بھرا رہتا تھا۔ مہمان آیا تو صاف کیا (صرف دِکھلانے کے لیے کہ ہم اس طرح صفائی سے رہتے ہیں) غرض ہر بات میں دکھلاوا ہے۔ اِن کا تو مذہب یہ ہے کہ کوئی یوں نہ کہے کہ ایسے ہیں اور ویسے ہیں۔ اور کوئی سے مراد اُن کی مخلوق ہوتی ہے، کاش اللہ تعالیٰ کو بھی اِس میں داخل کیا جاتا (یعنی اللہ تعالیٰ کی بھی ناراضگی اور خوشی کا لحاظ کیا جاتا)۔ (خیر الاثاث للاناث) اِسی طرح بنائو سنگار کرکے کہیں جانے کا سبب محض تکبر ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ میں بڑا ہوں۔ اس عادت کو بدلیے کیونکہ بڑا بننے کی عادت بہت بری ہے۔ حدیث میں لَایَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِّنْ کِبْرٍ یعنی جس شخص کے دل میں ذرہ برابر کبر ہوگا وہ جنت میں نہ جائے گا۔ (ملفوظات کمالات ِاشرفیہ)