ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
بھی کوفی ہی ہے سوائے اِس کے مدینہ منورہ وہ گئے ہیں، امام مالک رحمة اللہ علیہ سے حدیثیں سنی ہیں لکھی ہیں۔ امام مالک رحمة اللہ علیہ بھی اِن کے اساتذہ میں بنتے ہیں باقی جگہوں پر طلب ِعلم کے لیے جانا ایسا نہیں ثابت ہورہا۔ امام شافعی کے قول ِقدیم اور قول ِجدید کی وجہ : امام شافعی رحمة اللہ علیہ کا درجہ بہت بلند ہے۔ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے پھر گئے اُدھر مدینہ منورہ۔ وہاں امام مالک رحمة اللہ علیہ سے پڑھا پھر کوفہ گئے پھر وہاں سے ہوتے ہوئے بغداد آئے۔ بغداد جب آئے ہیں تو اُن کے شاگرد مستقل حیثیت اختیار کرچکے تھے گویا اجتہاد کا درجہ اُنہیں حاصل ہوگیا تھا اور اُن کے اقوال اُن کے فتوے نقل کیے جاتے تھے وہ امام کی حیثیت سے سامنے آئے کیونکہ امام احمد رحمة اللہ علیہ نے بھی اِن سے (امام شافعی سے) پڑھا ہے۔ گویا اب وہ بغداد کے سب سے بڑے عالم شمار ہونے لگے لیکن پھر یہاں سے وہ تشریف لے گئے مصر۔ جب مصر گئے ہیں تو وہاں جانے کے بعد دُوسرے علماء سے ملاقات ہوئی تبادلہ خیال ہوا تو انہوں نے تمام مسائل پر نظر ثانی کی اور اُن کی کتابوں میں قولِ قدیم اور قولِ جدید دو ملتے ہیں تو قول قدیم تو وہ ہے جو یہاں بغداد وغیرہ رہتے تھے مصر جانے سے پہلے یہ قول ِقدیم ہے۔ مصر جانے کے بعد یہ قول ِجدید ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے خاص مقام عطا فرمایا کوفہ کو اور بلند درجہ عطا فرمایا۔ تو اِس حدیث میں حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ دیکھو تمہارے پاس ابن مسعود ہیں، سعد ابن مالک بھی ہیں یعنی حضرت سعد ابن ابی وقاص جن کے بارے میں میں نے پہلے روایتیں سنائیں، رسول اللہ ۖ نے اِن کو دُعا دی۔ حضرت سعد اور شان ِصدیقیت ........ صدیقیت کا مطلب : اور اِن میں ایک چیز پائی جاتی تھی ''صدیقیت'' کی بھی اور ''صدیقیت'' کا مطلب یوں سمجھنا چاہیے کہ جو نبی فرمائے اُس کو اِس کی طبیعت مان لے۔ طبیعت کوماننے میں قبول کرنے میں دیر بالکل نہ لگے بس وہ صدیق ہے۔ اور یوں سمجھ لیجئے اِس سے بھی بڑی چیز طبیعت کی مناسبت کی ہوتی ہے کہ جو بات اللہ کی طرف سے نبی پر نازل ہورہی ہے وہ اُس کی طبیعت لیتی چلی جائے خود بخود۔ تو ایسی بات بھی پائی جاتی تھی۔ جب مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اب یہ علاقہ یوں سمجھئے کہ آزاد علاقہ تھا جیسے آزاد قبائل کا علاقہ، سرداری کا جیسے رواج ہو۔ وہاں پر رات کو چلنا پھرنا یہ خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اگر کوئی حملہ کرے کسی کو ماردے اچانک تو پتا چلنا ہی مشکل تھا کون مارگیا کس کو مارگیا۔ دیواریں بھی کوئی ایسی نہیں تھیں حفاظتی انتظام بھی کوئی ایسا نہیں تھا۔