ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
اور حویرث بن نقید مکہ مکرمہ میں آپ ۖ کو شدید ایذاء پہنچایا کرتا تھا اِس لیے یہ بھی قتل کیا گیا۔ اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ (فتح الباری) حضور اکرم ۖ کی شان میں بدگوئی کرنے والوں کے یہ واقعات وہ ہیں جو حضور ۖ کے زمانے میں پیش آئے لیکن حضور ۖ کی شان میں گستاخی کرنے کے جرم میں انہیں معاف نہیں کیا گیا بلکہ کیفرکردار تک پہنچایا گیا۔ اب چند واقعات وہ لکھے جاتے ہیں جو پاکستان بننے سے پہلے انگریزی دورِ حکومت میں واقع ہوئے اور غازیانِ اسلام نے اِن شاتمانِ رسول ۖ کو جہنم رسید کیا اور خود بھی جام ِشہادت نوش کیا۔ راج پال ہندو کی توہین ِرسالت : ١٩٢٣ء کو لاہور میں راج پال ہندو نے رُسوائے زمانہ کتاب ''رنگیلا رسول'' شائع کی جس میں حضور اکرم ۖ کی شان میں بڑی توہین کی گئی تھی۔ جب یہ کتاب چھپ کر بازار میں آئی تو مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑگئی۔ مسلمان زعماء نے حکومت سے اِس کتاب کی فوری ضبطی اور اِس کے ناشر کو قرار ِواقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا جس پر راج پال کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔ لاہور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ملزم کو چھ ماہ قید کی سزادی لیکن اُس وقت شادی لال جیسا متعصب چیف جسٹس تھا اُس کے ایماء پر راج پال ملزم کوسزا سے بری کردیا گیا جس نے مسلمانوں کی آتش غضب کو اور بھڑکادیا۔ چنانچہ ٢٤ستمبر ١٩٢٧ء کو جب ملعون راج پال اپنی دکان پر موجود کاروبار میں مشغول تھا۔ ایک مرد مجاہد خدا بخش نے جو اندرون یکی گیٹ لاہور کا رہنے والا تھا، اُس خبیث پر تیز دھاردار چاقو سے حملہ کرکے اُسے زخمی کردیا لیکن اِس بدبخت نے اُس وقت بھاگ کر اپنی جان بچالی۔ غازی خدا بخش کو زیر دفعہ ٣٠٧ الف تعزیراتِ ہند گرفتار کرلیا گیا اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لاہور سی ایم بی او گلوی کی عدالت میں اس کے مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ غازی خدا بخش نے اپنی طرف سے وکیل صفائی مقرر کرنے سے انکار کردیا۔ راج پال مستغیث نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا : ''مجھ پر یہ حملہ'' کتاب'' رنگیلا رسول'' کی اشاعت اور مسلمانوں کے ایجی ٹیشن کی وجہ سے کیا گیا ہے اور مجھے خطرہ ہے کہ ملزم خدا بخش اب بھی مجھے جان سے ماردے گا کیونکہ حملہ کے وقت ملزم چلایا تھا۔''کافر کے بچے! آج تو میرے ہاتھ آیا ہے میں تجھے زندہ نہیں چھوڑں گا''۔ عدالت کے استفسار پر اس مردِ