ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
ضمیمہ نمبر ١ ........ یزید اور شراب یہ جاننا ضروری ہے کہ اہل عرب کھجور کا طرح طرح استعمال کرتے تھے۔ ایک طریقہ مشروب کا یہ تھا کہ کھجوریں پانی میں بھگودیتے تھے۔ اور یہ پانی پیتے تھے، اِسے '' نَبِیْذْ ''کہا جاتا ہے۔ جناب رسول اللہ ۖ صبح کو بھگوتے تھے تو شام کو یہ پانی استعمال فرمالیتے تھے اور شام کو بھگوتے تھے تو صبح کو استعمال فرمالیتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی آپ نے اِس سے زیادہ وقت کی بھیگی ہوئی نبیذ بھی استعمال فرمائی ہے۔ یہ اہل عرب کی غذاء کا ایک حصہ تھا اب میں سہل الحصول حوالوں سے اگلی باتیں عرض کرنی چاہتا ہوں۔ جناب رسول اللہ ۖ اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں حسب ِعادت نبیذ ِشدید (تیز نبیذ) بھی برابر استعمال کی جاتی رہی ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ جناب رسول اللہ ۖ کی خدمت میں تیز نبیذ لائی گئی۔ آپ نے اِس کی تیزی کی وجہ سے ایک دم ناک ہٹالی۔ پھر اِس میں پانی ملوایا پھر استعمال فرمائی۔ اور طحاوی شریف کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض علاقوں کے لوگ نبیذ ِشدید ہی پیا کرتے تھے۔ سیدنا فاروق اعظم بھی نبیذ شدید استعمال فرمایا کرتے تھے، حضرت ابن عمر بھی اور حضرت علی بھی( رضی اللہ عنہم)۔ اب یہ بھی عرض کرتا جائوں کہ نبیذ ِشدید نشہ بھی کردیتی ہے۔ مثلاً جو شخص ہلکی نبیذ پینے کا عادی ہو وہ اگر تیز نبیذ پی لے گا تو نشہ ہوجائے گا۔ چنانچہ ایک شخص نے حضرت عمر کے برتن سے نبیذ پی لی اُسے نشہ ہوگیا تو حضرت عمر نے اُسے حد لگادی۔ وہ کہتا رہا کہ امیر المؤمنین میں نے تو آپ کے برتن میں سے پی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ میں نشہ پر حد لگارہا ہوں یعنی اِس کی تیزی تو زبان کو معلوم ہوگئی ہو گی تو احتیاط کرنی چاہیے تھی ،اتنی نہ پیتے کہ نشہ ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد انہیں نبیذ پلائی، اُن میں سے ایک شخص کو نشہ ہوگیا تو اُسے حد لگادی وہ کہنے لگا کہ آپ بلاتے بھی ہیں کھلاتے بھی ہیں، پلاتے بھی ہیں اور حد بھی لگاتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے دعوت کی، اگلے دن اُن مدعوین میں سے ایک صاحب کہنے لگے کہ نبیذ کی وجہ سے مجھے رستہ صحیح طرح نہیں سمجھ میں آرہا تھا مَاکِدْتُّ اَھْتَدِی الطَّرِیْقَ ۔ ملاحظہ ہو الکوکب الدری ص ١٢ و ص ١٣ ج ٢ مع حواشی۔ اور ایسی بہت سی روایات طحاوی شریف کے آخری حصہ میں ہیں۔ اُنہوں نے کافی روایات لکھی ہیں اور بہت مبسوط بحث فرمائی ہے۔ ( دیکھیںطحاوی باب مایحرم من النبیذ ص ٢٧٠ ج٢)