ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
یک اور مرض : ایک مرض عورتوں میں یہ ہے کہ جب کہیں یہ محفل میں جاتی ہیں تو سب کے لباس اور زیور کو سر سے پیر تک تاک لیتی ہیں تاکہ دیکھیں کہ ہم سے تو کوئی زیادہ نہیں؟ اور ہم کسی سے گھٹے ہوئے تو نہیں، یہ بھی اسی ریا اور تکبر کا شعبہ ہے۔ یہ مرض مردوں میں کم ہے اگر دس آدمی ایک جگہ جمع ہوں تو مردوں میں سے کسی کو اِس کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ کسی کا لباس کیسا ہے ،اسی لیے مجلس میں اُٹھ کر وہ کسی کے لباس کا حال بیان نہیں کرسکتے اور عورتوں میں سے ہر ایک کو یاد رہتا ہے کہ کس کی بیوی کے پاس کتنا زیور تھا۔ خوب یاد رکھو اس غرض سے قیمتی لباس وغیرہ پہننا جائز نہیں۔ (غریب الدنیا ملحقہ دین و دنیا) عورتوں کی نگاہ ایسی تیز ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ! کہیں محفل میں جائیں گی تو ذرا سی دیر میں سب کے زیور اور لباس پر فوراً نظر پڑجائے گی۔ اب جب سب کے زیور اور کپڑے دیکھ بھال کر آئیں تو خاوند کو پریشان کرنا شروع کیا کہ ہمیں بھی ایسا ہی بناکردو۔ اور غضب یہ کہ اگر وہ زیور جو دوسری کے پاس دیکھا ہے اپنے پاس بھی ہو لیکن دوسرے نمونے کا ہو تب بھی پریشان کرتی ہیں کہ بھدا بنا ہوا ہے فلانی کا نمونہ اچھا ہے ویسا بنوادو۔ اب اگر خاوند ہزار کہے کہ اِس میں پہلی گھڑائی (بنوائی)کا نقصان ہے اور دوسری گھڑائی خواہ مخواہ ذرا سے نمونہ کے واسطے دینی پڑے گی تو ایک نہیں سنیں گی۔ (بہتر طریقہ یہ ہے کہ) پہلے دفعہ (من چاہی) خوبصورت بنوالو۔ پھر جیسا ہو اُسی پر اکتفا کرلو۔ بار بار تھوڑ پھوڑ میں گھڑائی (بنوائی) ضائع ہونے کے علاوہ خود سونا بھی ضائع ہوتا جاتا ہے۔ کیونکہ سنار ہر دفعہ اِس میں کچھ نہ کچھ کھوٹ ضرور ملاتے ہیں جس سے دو تین دفعہ میں زیور کی مالیت آدھی رہ جاتی ہے۔ مگر عورتوں کی بلا سے وہ جانتی ہیں کہ مرد اور لالاکردے گا۔ جو چاہو فرمائش کرلو۔ پھر اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مجبوراً خاوند کو رشوت لینی پڑتی ہے تو اکثر رشوت لینے کا سبب یہ عورتیں ہی ہوتی ہیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ کمانے میں سارا گناہ مرد کو ہوتا ہے بلکہ یہ بھی اس کے ساتھ عذاب بھگتیں گی۔ (اسباب الغفلة )