ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
موس رسول ۖ کے اس ہجوم پر اچانک گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس کے نتیجہ میں سینکڑوں مسلمان شہید اور زخمی ہوئے۔ معصوم عورتیں اور بچے جو مکانوں کی چھتوں سے اس کا جنازہ دیکھ رہے تھے ان کی شقاوت کا نشانہ بنے اور اس دن وہ سب شہیدانِ ناموس رسالت اس فدائی رسول ۖ کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں پہنچ گئے ہوں گے۔ غازی محمد صدیق شہید : غازی محمد صدیق فیروز پور ضلع قصور کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا، ماں نے بڑے لاڈ پیار سے بیٹے کی پرورش کی اور ساتھ ساتھ صحیح تربیت تھی۔ ١٩٣٤ء میں یہ نوخیز بچہ جب بیس برس کا ہوا تو اِسے خواب میں رسول اللہ ۖ کی زیارت نصیب ہوئی اور حکم ہوا کہ قصور کے ایک دریدہ دہن گستاخ پالامل زرگر کا منہ بند کیا جائے۔ یہ بشارت ملتے ہی نوجوان غازی تڑپ کر بیدار ہوا تو اُس کے ساتھ اُس کا مقدر بھی جاگ اُٹھا۔ اُس نے ماں کو یہ خوشخبری سنائی تو ماں نے خوشی سے لخت جگر کا ماتھا چوما اور شہادت کی اُلفت کی طرف اُسے روانہ کیا۔ قصور پہنچ کر اِس مرد غازی نے اُس گستاخ رسول پالا مل کو راستہ ہی میں دبوچ لیا، اُسے پچھاڑکر اُس کے سینہ پر سوار ہوگئے اور تیز دھاردار آلہ سے پے درپے وار کرکے اِس موذی کو ہلاک کردیا اور وہاں سے فرار ہونے کے بجائے قریب ہی کی مسجد میں جاکر سب سے پہلے نماز شکرانہ ادا کی اور پھر مسجد کی سیڑھیوں پر اس شان اور تمکنت کے ساتھ بیٹھ گئے کہ کسی ہندو کو اِن کے پاس آنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ فیروز مندی ان کے قدم چوم رہی تھی اور فی الحقیقت اِس سے بڑھ کر اور کیا نمایاں کام ہوسکتا تھا جس پر مسرت اور شادمانی بھی ناز کرے کہ ایک شاتم رسول ۖ اِن کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔ حسب ِمعمول انگریز قانون حرکت میں آیا اور مرد مجاہد کا مقدمہ سیشن کے سپرد ہوا۔ غازی موصوف کی جانب سے میاں عبد العزیز مالوڈہ اور نو مسلم بیرسٹر خالد لطیف گابانے مقدمہ کی پیروی کی لیکن چونکہ آپ نے عدالت کے رُوبرو جرأت کے ساتھ اعتراف قتل کرلیا تھا اس لیے سزائے موت سنائی گئی۔ آفرین ہے اُس ماں پر جس نے ایسے پیکر جرأت و ایثار کو جنم دیا اور آفرین ہے اِس نوجوان مرد غازی پر جو اپنے آقا و مولا کے نام پر قربان ہوگیا۔ یہ فیصلہ سن کر ماں نے ایک بار پھر اپنے بیٹے کا ماتھا چوما اور کہا کہ یہ ایک بیٹا تو کیا ایسے بیس بیٹے بھی ہوتے تو میں اُن سب کو اپنے آقا کے نام پر قربان کردیتی۔ بیٹے نے بھی یہی کہا کہ یہ