ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
ضمیمہ نمبر ٣ ......... بیعت ابن ِعمر رضی اللہ عنہما اب رہا یہ کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے کیوں بیعت کی اور کیوں اہل مدینہ کے ساتھ مل کر نہیں توڑی بلکہ اس کی مخالفت کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کافی عرصہ قبل جان چکے تھے کہ یہ لوگ حکومت ہرگز نہیں چھوڑیں گے چاہے جو ہوجائے۔ وہ نہ اہل مدینہ کی رعایت کریں گے نہ اہل مکہ کی اور نہ حرمین کا احترام کریں گے اور اہل مدینہ بلا احترام جنگ نہیں جیت سکتے اس لیے خونریزی فضول ہوگی جس سے بچنا چاہیے۔ ایسے ہی حالات دیکھ کر وہ بہت عرصہ قبل سیاسیات سے کنارہ کش ہوگئے تھے جس کی وجہ ایک واقعہ تھا جو اِن کے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان گزرا تھا۔ جس کی تفصیل عرض کرتا ہوں مگر اس سے پہلے اس گفتگو کاپس منظر بھی جو آگے بحوالہ بخاری شریف آنے والی ہے۔ بات یہ تھی کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بات دیکھ کر طے کیا تھا کہ ہم سب جہاد میں بھرپور حصہ لیں گے۔ اُنہوں نے پوری مملکت شام اور اُس سے آگے ترکی کا علاقہ بھی فتح کیا اِس لیے بنواُمیہ کا خیال یہ ہوگیا تھا کہ حکومت ہم زیادہ بہتر طرح کرسکتے ہیں۔ وہ خود کو اِس کا مستحق سمجھنے لگے تھے اور اِس کا اظہار بھی کرتے تھے۔اس کے بعد حضرت ابن ِ عمر ومعاویہ رضی اللہ عنہم کا واقعہ نقل کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ اپنے ابتدائی دور میں ایک مرتبہ سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ شریف تشریف لائے تو اُنہوں نے ابن ِعمر سے تنہائی میں ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا تھا مگر بڑے سخت الفاظ میں ۔ بخاری شریف میں ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی حَفْصَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَنَوْسَاتُھَا تَنْطِفُ قُلْتُ قَدْ کَانَ مِنْ اَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَیْنَ فَلَمْ یُجْعَلْ لِّیْ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئ فَقَالَتْ اِلْحَقْ فَاِنَّھُمْ یَنْتَظِرُوْنَکَ وَاَخْشٰی اَنْ یَّکُوْنَ فِی احْتِبَاسِکَ عَنْھُمْ فُرْقَة فَلَمْ تَدَعْہُ حَتّٰی ذَھَبَ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعٰوِیَةُ قَالَ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَکَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْاَمْرِ فَلْیُطْلِعْ لَنَا قَرْنَہ فَلَنَحْنُ اَحَقُّ مِنْہُ وَمِنْ اَبِیْہِ قَالَ حَبِیْب بْنُ مَسْلَمَةَ فَھَلَّا اَجَبْتَہ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَحَلَّلْتُ حَبْوَتِیْ وَھَمَّمْتُ اَنْ اَقُوْلَ اَحَقُّ بِھٰذَا الْاَمْرِ مِنْکَ مَنْ قَاتَلَکَ وَاَبَاکَ عَلَی الْاِسْلَامِ فَخَشِیْتُ اَنْ اَقُوْلَ کَلِمَةً تُفَرِّقُ بَیْنَ الْجَمِیْعِ وَتَسْفِکُ الدَّمَ وَیُحْمَلُ عَنِّیْ غَیْرُ ذٰلِکَ فَذَکَرْتُ مَا اَعَدَّ اللّٰہُ فِی