ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
ڑھے کے چہرہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ چہرہ پر وہی نشان تھا جو اکثر ساجدین کے چہروں پر سجدہ کرنے کی وجہ سے پڑا ہوتا ہے۔ مونچھیں مونڈھی ہوئیں، داڑھی کی سنت ِمبارکہ چہرہ پہ سجائے ہوئے، سر پہ ٹوپی پہنے ہوئے، سفید پوش بابا اپنے چھوٹے بھائی عصمت اللہ سے یوں گویا ہوئے'' عصمت اللہ کوئی بات نہیں ہمارا انصاف خدا کرے گا'' ۔یہ جملہ دونوں بھائیوں کی ماقبل گفتگو کا حصہ تھا جو میں نہ سمجھ سکا۔ جملہ سن کر مجھ سے خاموش نہ رہا گیا، میں نے پوچھا بزرگو! کیا پریشانی ہے میرے استفسار پر بتایا کہ ہمیں کئی روزتک انتظامیہ کی طرف سے ہراساں کیا گیا۔ سوال : آپ کو شہادت کی خبر کس نے دی تھی؟ جواب : گھڑی اعوان میں عامر شہید کی بہن کو اُس کی کزن نے برلن سے بذریعہ ٹیلی فون خبردی جو بعد میںبیٹیوں کے ذریعے مجھ تک پہنچی۔ سوال : اتنی بڑی خبر حکمرانوں میں سے آپ کو دینے کوئی نہیں آیا؟ جواب : حکمران تو ہمیں اُن دِنوں میں نہ جانے کس کے اشارہ پر مسلسل ہراساں کررہے تھے اُن کے پاس دبائو میں لانے کے علاوہ اور کوئی کام نہ تھا۔ سوال : عامر شہید کی میت کیسے پہنچی؟ جواب : لاہور سے بذریعہ وزیر اعلیٰ کے ہیلی کاپٹر میں گوجرانوالہ کینٹ پہنچی پھر وہاں سے ساروکی میں گاڑی کے ذریعے آئی۔ سوال : سنا ہے کہ بھائی عامر کے جنازہ پڑھانے کے وقت مختلف مکتبہ فکر کے علماء کوشش کرتے رہے اور یہ نوبت سنا ہے کہ جھگڑے کی صورت بھی اختیار کررہی تھی؟ جواب : جی ہاں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ عامر شہید عشق رسول پر فدا ہوا ہے اِسی وجہ سے ہر ایک کی کوشش تھی کہ یہ سعادت ہم کو ملے لہٰذا میں نے سوچا کہ عامر تو اب اُمت مسلمہ کا ثانی غازی علم الدین ہے لہٰذا یہ اختلاف تب ہی ختم ہوسکتا ہے کہ کوئی غیر جانبدار جنازہ پڑھائے لہٰذا میں نے خود ہی جنازہ پڑھایا۔ سوال : عامر شہید کے بارے میں آپ نے کوئی خواب دیکھا ہو؟ جواب : ہم نے خواب تو نہیں دیکھا لیکن عامر کے اُستاذ یحییٰ علوی صاحب نے خواب دیکھا ہے جو گورنمنٹ جامعہ اسکول فاربوائز راولپنڈی کے اُستاذ ہیں کافی دیر تک اسلامیات پڑھاتے رہے ہیں۔ وہ فرماتے