ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
یک جان کیا چیز ہے ایسی ہزار جانیں میرے آقا کی خاک پر نثار ہیں۔ سبحان اللہ! غازی عبد اللہ شہید : یہ بھی تقسیم ہند سے قبل اغلباً ١٩٤٣ء کا واقعہ ہے۔ ایک بدبخت سکھ چلچل سنگھ شیخوپورہ کے گرد و نواح میں نبی کریم ۖ کے خلاف بدگوئی کرکے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتا پھرتا تھا۔ قصور کے رہنے والے ایک جیالے جوان عبد اللہ کو سرکارِ رسالت مآب ۖ نے خواب میں حکم دیا کہ وہ اِس گستاخ کا منہ بند کرے۔ چنانچہ کسی سے اس خواب کا ذکر کیے بغیر وہ شوریدہ سر آتش بجاں اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس مردود کی تلاش میں نکل پڑا۔ معلوم ہوا کہ وہ خبیث وارث شاہ کے گائوں جنڈیالہ شیر خان میں رہتا ہے جو اُس وقت سکھوں کا گڑھ تھا۔ بستی کے قریب پہنچ کر مزید دریافت پر پتا چلا کہ وہ اپنے کنویں پر بیٹھا کسی کام میں مشغول ہے، اُس کے قریب ہی سکھوں کا جتھہ مصروفِ گفتگو تھا۔ غازی عبد اللہ نے ایک نظر میں اُس دشمن ِدین کو پہچان لیا انہیں محسوس ہوا کہ ان کے جسم میں غیری معمولی طاقت بجلی بن کر دوڑرہی ہے۔ چلچل سنگھ پر وہ جھپٹ کر حملہ آور ہوئے اور اُسے پچھاڑکر اُس کے سینہ پر چڑھ بیٹھے اور پوری قوت سے اُس کی شہ رگ کاٹ دی اور اُس کا سر تن سے جدا کردیا۔ اِس ناگہانی حملہ کو دیکھ کر پاس ہی بیٹھے ہوئے سکھ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے لیکن یہ مرد غازی اپنے آقا کے فرمان کی تعمیل کے بعد اِس مردود کے لاشہ سے اُٹھا اور وہیں رب کے حضور سر بسجود ہوا کہ اُس نے اِس مہم کو کامیاب فرماکر اُسے سرفرازی بخشی اور سرخرو کیا۔ موقع واردات پر جب پولیس پہنچی تو اِس مرد مجاہد کو وہیں پر موجود پایا جس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ پولیس نے گرفتار کرکے دِلی مراد پوری کردی۔ شیخوپورہ کے معروف وکیل ملک انور مرحوم نے مقدمہ کی پیروی کی لیکن چونکہ غازی عبد اللہ نے عدالت کے رُوبرو اعتراف ِجرم محبت کرلیا تھا اِس لیے سزائے موت سنائی گئی ،تو ایک مرتبہ پھر سجدۂ شکر بجالائے کہ انہیں بھی شہیدانِ رسالت ۖ کی صف میں جگہ مل رہی ہے جس پر جتنا بھی فخر و ناز کیا جائے کم ہے۔ غازی عبد الرشید شہید : غازی عبد الرشید شہید کا نامِ نامی بھی سرفروشانِ ملت میں ہمیشہ نمایاں رہے گا جس نے آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی کے چیلے سوامی شردھانند جیسے خبیث شاتم رسول کو دہلی میں موت کے گھاٹ اُتارا اور