ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
لیکن نقض ِامن کے اندیشہ کے پیش نظر جیل کے کارندوں نے حکومت کی خفیہ ہدایات پر شہید نبوت کی لاش کو نہایت خاموشی کے ساتھ عجلت میں جیل کے احاطہ میں عام قیدیوں کے قبرستان کے اندر دفن کردیا، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ لاہور اور دوسرے شہروں میں ہڑتالیں شروع ہوئیں، کاروبار معطل ہوگیا، برہنہ پا اور برہنہ سر ماتمی جلوس نکلنے لگے اور مسلمانوں میں شدید ہیجان پیدا ہوگیا، اس پر اکابرین ِوقت جن میں علامہ اقبال پیش پیش تھے۔ سرمحمدشفیع، جناب محسن شاہ والد محترم جناب جسٹس ڈاکٹر نعیم حسن شاہ چیف جسٹس پاکستان اور دوسرے قائدین کے ہمراہ گورنر سے ملے اور اپنے جواں سال شہید کی لاش کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جو اِس یقین دہانی پر کہ وہ امن ِعامہ برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ حکومت نعش اِن کے حوالہ کرنے پر رضامند ہوگئی۔ چنانچہ تدفین کے تیرھویں دن مسلمان مجسٹریٹ اور میونسپل کمشنر وں کی موجودگی میں شہید کی میت قبر سے نکالی گئیں۔ عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ کئی دِن گزرجانے کے باوجود لاش صحیح اور سالم حالت میں موجود تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی آنکھ لگی ہے۔ ١٤نومبر ١٩٢٩ء کو سارے شہر اور اُس کے گردو نواح سے ہزاروں لاکھوں انسانوں کا ایک سیلِ بے پناہ فدائی رسول ۖ کے استقبال کے لیے رواں دواں تھا۔ مسجد وزیر خان کے خدا ترس خطیب مولانا محمد شمس الدین نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مولانا ظفر علی خان نے اس شہید رسالت کی لحد میں تدفین سے قبل اُتر کر کہا : ''کاش یہ سعادت مجھے نصیب ہوتی!'' شہید کے جسم کو اشکبار آنکھوں سے علامہ اقبال جیسے شیدائی رسول نے قبر میں اُتاراجس پر علامہ کی زبان سے بے اختیار نکل گیا ''یہ جوان ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا''۔ غازی عبد القیوم شہید اور نتھورام کا قتل : غازی عبد القیوم کا واقعۂ شہادت بڑا ہی ایمان افروز واقعہ ہے۔ اس نوجوان مرد مجاہد کا تعلق غازی آباد ضلع ہزارہ کے ایک غریب گھرانے سے تھا لیکن کسے خبر تھی کہ ایک دن تخت ہزارہ کی شہ نشینی سے بھی اُونچا مرگ باشرف کا رُتبۂ شہادت اِسے نصیب ہوگا۔ اپنے گائوں سے وہ تلاش روزگار میں کراچی آیا جہاں اِسے رزق حلال کے لیے گھوڑا گاڑی مل گئی جس کی آمدن سے وہ اپنی بوڑھی ماں، بیوہ بہن اور ضعیف چچا اور نوبیاہتا بیوی کی کفالت کررہا تھا۔ نماز فجر اور عشاء کی نماز وہ اپنے محلہ کی مسجد میں پڑھا کرتا تھا۔ ایک روز امام مسجد نے اہل مسجد کو اشکبار