ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
بحث کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ راج پال نے ''رنگیلا رسول'' جیسی قابل اعتراض کتاب شائع کرکے پیغمبر اسلام کی توہین کی ہے جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا، چونکہ یہ کتاب اشتعال انگیزی کا سبب بنی اِس لیے ملزم نے قتل عمد کا ارتکاب نہیں کیا لہٰذا اِسے سزائے موت نہیں دی جاسکتی۔ اِس کے جواب میں وکیل سرکار رام لال نے منجملہ دیگر دلائل کے یہ موقف اختیار کیا کہ پیغمبر اسلام کی اہانت واقعی افسوسناک بات ہے لیکن تعزیرات ِہند میں اِس جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں اس لیے مقتول نے کوئی خلاف قانون حرکت نہیں کی تھی چنانچہ ملزم کا یہ فعل اشتعال انگیزی کی تعریف میں نہیں آتا اور اُس نے سیشن کورٹ کی سزائے موت کا فیصلہ بحال رکھا۔ جب یہ فیصلہ غازی علم الدین کو سنایا گیا تو وہ مارے خوشی کے چیخ اُٹھے اور کہا : ''اِس سے بڑھ کر میری اور کیا خوش نصیبی ہوگی کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہورہی ہے اور بارگاہِ رسالت میں حاضری کی سعادت سے بھی مجھے سرفراز کیا جارہا ہے''۔ جب اِن کا غمگسار دوست ''شیدا'' ان سے ملاقات کے لیے میانوالی جیل پہنچا تو اُسے غمگین دیکھ کر علم الدین نے کہا : ''یار! آج تجھے تو میری طرح خوش ہونا چاہیے۔ اپنے آقا کے نام پر کٹ مرنا ہی ایک مسلمان کی سب سے بڑی آرزو ہے اور اللہ پاک کی یہ کتنی بڑی کرم نوازی ہے کہ ہزاروں لاکھوں مسلمانوں میں سے اپنے اِس حقیر بندے کے ہاتھوں اس ناپاک شیطان کو ختم کرایا اور دیکھو رسول کریم ۖ پر قربان ہونے کی میری دِلی مراد بھی پوری ہورہی ہے ۔اس لیے تمام مسلمان بھائیوں تک میری یہ بات پہنچادو کہ وہ میری موت پر غم نہ کریں بلکہ میرے لیے دُعائے خیر کریں''۔ والدین اور عزیز و اقارب سے آخری ملاقات کے موقع پر اپنی والدہ سے کہا کہ وہ اِن کا دودھ بخش دے۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کہنے لگے : ''ماں دیکھ تو کتنی خوش نصیب ہے کہ تیرے بیٹے کو شہادت کی موت مل رہی ہے مجھے تو ہنسی و خوشی رُخصت کرنا چاہیے''۔ پھر علم الدین نے پیالہ سے پانی پیا اور اسی پیالہ سے اپنے عزیزوں اور والد طالع مند کو پانی پلاکر پوچھا