ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
سجل لباس پر خوشبو لگائی، اِس سے قبل اُنہوں نے اپنی ماں سے میٹھے چاول کی فرمائش کی تھی جسے باپ بیٹے نے مل کر تناول کیا۔ باپ کے کسی کام پر جانے کے بعد علم الدین نے اپنی معصوم بھتیجی کے ماتھے کو سوتے میں بڑے پیار سے چوما اور اپنی بھابھی سے کچھ پیسے لے کر اِس سج دھج سے خوشی خوشی اپنی مہم پر روانہ ہوگئے مگر کسی کے ذہن میں یہ بات نہ آئی کہ علم الدین نے آج کے دن یہ سارا اہتمام کیوں کیا ہے؟ گھر سے گمٹی بازار پہنچ کر وہاں آتما رام کباڑئیے کی دکان سے ایک روپیہ میں ایک لمبا چاقو خریدا اور اِسے شلوار کے نیفہ میں رکھ لیا، پھر وہ سیدھے دوپہر کے وقت انارکلی ہسپتال روڈ، راج پال کی دُکان کے سامنے والی ٹال پر پہنچے۔ جوں ہی ٹال والے جوان نے علم الدین کو بتلایا کہ وہ منحوس دکان کے اندر داخل ہوا ہے تو وہ اپنے شکار کے تعاقب میں دکان کے اندر پہنچ گئے اور اُسے دیکھتے ہی اِن کی آنکھوں میں خون اُتر آیا، اِس کے ساتھ ہی اِن کے اندر عقابی رُوح بیدار ہوئی اور انہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگی۔ چیتے کی سی پھرتی کے ساتھ جھپٹ کر علم الدین نے راج پال خبیث کے سینے میں چاقو پیوست کردیا، جو اُس کے دل کو چیرتا ہوا نکل گیا۔ یہ ضرب ایسی کاری ثابت ہوئی کہ وہ مردود زخموں کی تاب نہ لاکر اَوندھے منہ زمین پر گرپڑا اور وہیں اُس نے دم توڑدیا۔ اس طرح اس بدبخت کو کیفر کردار پہنچانے کے بعد غازی علم الدین جب دکان سے باہر نکلے تو مقتول کے ملازمین نے ''ماردیا ماردیا'' کا شور مچانا شروع کردیا، جس پر قریب کے ایک ہندو دکاندار سیتارام کے لڑکے اور اس کے ساتھیوں نے آکر پیچھے سے اِس نوجوان غازی کو پکڑلیا، جس پر علم الدین نے کہا ''آج میں نے اپنے رسول ۖ کا بدلہ لے لیا''، ''آج میں نے اپنے رسول ۖ کا بدلہ لے لیا'' ۔اس عرصہ میں پولیس بھی جائے واردات پر پہنچ گئی جس نے غازی علم الدین کو گرفتار کرلیا اور ١٠ اپریل ١٩٢٩ء کو مسٹر لوئیس ایڈیشنل مجسٹریٹ لاہور کی عدالت میں علم الدین کے خلاف زیر دفعہ ٣٠٢ تعزیرات ِہند مقدمۂ قتل کی کارروائی شروع ہوئی۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران علم الدین کے چہرے پر معصوم مسکراہٹ کھیلتی رہی۔ شہادت قلم بندہونے کے بعد سرسری بحث کے بعد مقدمہ سیشن کے سپرد ہوا۔ سیشن کورٹ نے ٢٢ مئی ١٩٢٩ء کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا اور مِسل حسب ضابطہ توثیق کے لیے لاہور ہائی کورٹ بھجوائی گئی۔ والدین کے حکم کی تعمیل میں علم الدین کی جانب سے بھی اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی گئی جس کی پیروی اُس وقت کے چوٹی کے قانون دان اسلامیان ہند کے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ قائد اعظم کی