ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
تلوار اُٹھائی تھی کبھی ایسا سلوک روا نہیں رکھا تھا۔ مروان بصرہ کے واقعہ جمل میں قید ہوکر آیا اُسے اور دوسرے قیدیوں کو آپ نے چھوڑدیا۔ انہوں نے اعلان فرمادیا تھا کہ جو عین میدان جنگ میں بھاگ کھڑا ہو اُس کا بھی پیچھا نہ کرو۔ (پھر ان کے بعد حضرت معاویہ نے بھی ان ہی کے طریقہ پر عمل کیا) اور یہی مسئلہ فقہ حنفی کے مسائل میں واقعہ جمل کے حوالہ سے ذکر کیا جاتا ہے۔ غرض شرعاً حضرت امام حسین کا طریق کار مکہ مکرمہ سے روانگی کے وقت اور ابن ِزیاد سے بات چیت کے وقت قطعاً دُرست تھا۔ پھر آخر میں انہوں نے جب تین صورتیں پیش فرمادیں تو مدمقابل کو دست درازی کا کوئی جواز ہی نہیں رہا تھا۔ اِن کے ساتھ ابن ِزیاد کا معاملہ سراسر ظلم تھا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ساتھیوں سے فرمادیا تھا کہ یہ لوگ مجھے نہ چھوڑیں گے۔ آپ لوگوں کو اجازت دیتا ہوں کو جو اِدھر اُدھر ہونا اور جانا چاہے چلاجائے۔ لیکن کوئی ساتھی آپ کو چھوڑکر جانے پر راضی نہ ہوا۔ آخر میں جب آپ کو اندازہ ہوا کہ یہ مقابل لوگ حملہ کریں گے اور شہید کریں گے تو بھی آپ نے اپنے والد ماجد سیدنا علی کرم اللہ وجہہ' کی طرح ساتھیوں کو یہ حکم دیا کہ لڑائی میں کوئی پہل نہ کرے۔ دوسرا فریق پہل کرے تو کرے (یہ مسئلہ بھی فقہ حنفی میں ہے اور حضرت علی ہی کے قتال ِبغاة سے لیا گیا ہے) اسی طرح کربلامیں ہوا۔ پہل بھی ابن زیاد کے لشکر کی طرف سے ہوئی حتی کہ سب لڑسکنے والے شہید ہوئے۔ رحمہم اللہ تعالیٰ ورضی عنہم۔ ابن ِزیاد کے عبرتناک انجام کا ذکر تو ترمذی شریف میں ہے اور شہادت حسین کی براہ ِراست ذمہ داری اسی پر ہے لیکن بالواسطہ یزید پر بھی اس کی ذمہ داری آتی ہے کہ اُس نے ابن زیاد کو ادنی ترین سرزنش بھی نہیں کی جیسے آج کل ٹرانسفر کردیا جاتا ہے، اس نے نہ اُس کا تبادلہ کیا نہ اُسے معطل کیا چہ جائیکہ سخت سزادیتا۔ اور جو کسی ظلم پر راضی ہو اور ظالم سے متفق ہو وہ بھی اُس ظلم میں شریک ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ قتل حسین کے ظلم اور جرم میں شریک رہا۔ وَمَنْ غَابَ عَنْہَا فَرَضِیَھَا کَانَ کَمَنْ شَھِدَھَا (مشکٰوة ص ٤٣٦ ) اب جناب کے سامنے واقعہ کا بالاجمال پورا خاکہ ہے۔ اس کی روشنی میں غور فرمائیں کہ'' قُتِلَ الْحُسَیْنُ بِسَیْفِ جَدِّہ '' کس قدر بیجا دعوی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ یا کسی ناصبی کا ہے یا ایسے شخص کا ہے جس کی نظر نہ تاریخ پر ہے اور نہ صورت واقعہ اور مسائل پر کیونکہ اِن کے نانا کی تلوار ظالم کے لیے تھی نہ کہ مظلوم کے لیے اور وہ بالاتفاق مظلوم ہیں اور شہید رضی اللہ عنہ۔