ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
الْجَنَانِ قَالَ حَبِیْب حَفِظْتَ وَعَصَمْتَ۔ (بخاری شریف ص ٥٩٠ ج٢ باب غزوة الخندق) ''حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ میں حضرت حفصہ (اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا) کے پاس گیا، وہ سر دھوکر فارغ ہوئی تھیں، اُن کی لمٹوں سے پانی ٹپک رہا تھا، میں نے کہا لوگوں کا معاملہ جو ہوا وہ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے مجھے کوئی کام تفویض نہیں کیا گیا۔ وہ فرمانے لگیں کہ تم وہیں جائو وہ تمہارے انتظار میں ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ تم اگر اُن کے پاس جانے سے رُکے رہے تو لوگوں میں افتراق پیدا ہوگا، اُنہوں نے (ان پر اتنا اصرار فرمایا کہ) اِنہیں وہاں بھیج کر ہی چھوڑا۔ جب لوگ اِدھر اُدھر ہوگئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطاب فرمایا اور فرمایا کہ جو کوئی اس کام میں (کار ِحکومت میں) بات کرنی چاہتا ہے تو وہ ہمارے سامنے اپنا سینگ نکالے (سر اٹھائے) یقیناً ہم اُس سے اور اُس کے باپ سے زیادہ حق دار ہیں، اس پر حبیب بن مسلمہ نے پوچھا کہ پھر آپ نے انہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا؟ فرمانے لگے کہ میں نے اپنی کمر کا بند کھولا اور اِرادہ کیا کہ اِن سے یہ کہوں کہ اس کام کا زیادہ حق دار تم سے وہ ہے کہ جس نے تم سے اور تمہارے والد سے اسلام کے لیے جہاد کیا تھا (لیکن بہن سے باتوں کے بعد) مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں میری زبان سے ایسی بات نہ نکل جائے جو جمع شدہ مسلمانوں میں تفریق پیدا کردے اور خونریزی ہو اور جو میں کہوں وہ بات تو رہ جائے اور دوسری باتیں میری طرف منسوب ہوجائیں۔ اس پر میں نے یاد کیا کہ اللہ تعالیٰ نے صبروایثار کرنے والوں کے ساتھ جو جنتوں میں وعدہ فرمارکھا ہے۔ حضرت حبیب نے فرمایا کہ آپ بچ گئے اور (ہرطرح) محفوظ رہے''۔ (بخاری شریف باب غزوة الخندق) جب انہیں مشیر بھی نہ بنایا گیا اور بہن اُم المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی رائے بھی ایسی ہی دیکھی کہ یکسو رہنا ہی بہتر ہے۔ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ کے لیے سیاست و امارت اور مشاورت امیر وغیرہ سے دستبردار ہوگئے، ان کے بعد کے حالات ِ زندگی یہی بتلاتے ہیں۔ ادھر عام بنو اُمیہ کا یہ رجحان بڑھتا ہی گیا، اور بعض