ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
بنواُمیہ کی حکومت ہی دُنیا سے ناپید ہوگئی (یہ واقعات کا تو وہ حصہ ہے جو تاریخ کی ہر کتاب میں ہے لیکن یزید کے مداح لوگوں نے اِسے حذف ہی کررکھا ہے) اس مسئلہ میں جو بات عرض کرنی چاہتا تھا وہ صرف یہ تھی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابۂ کرام کو طریق استخلاف سے اختلاف تھا۔ ان کے نزدیک اس طرح مشورہ کرکے جانشین کا تقرر درست نہیں تھا۔ آگے یہ ہوا کہ ایسی صورت میں اہل کوفہ کی طرف سے دعوت موصول ہوئی۔ جنہوں نے یہ بھی صاف لکھا تھا کہ ہم نے اب تک کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایسی صورت میں اِن کی دعوت قبول کرنا ضروری تھا ۔یہ ضروری یا فرضیت کے درجہ میں تھا یا وجوب اور یا صرف استحباب کے درجہ میں کم از کم سفر کرکے پہنچنا بہتر تھا۔ بہرحال اُنہوں نے اِس دعوت کو قبول فرمایا لیکن اس طریقہ سے کہ قتال کے بغیر کامیابی ہو۔ اسی لیے اُنہوں نے اپنے ساتھ لشکر نہیں لیا بلکہ بیوی بچوں عورتوں اور رشتہ داروں کو لیا۔ اور اِسی لیے بعد میں اُنہوں نے ابن زیاد کے لشکریوں سے فرمایا کہ مجھے واپس جانے دو یا یزید کے پاس لے چلو یا اور آگے جہاد پر جانے دو، کیونکہ اِن سب صورتوں میں قتالِ مسلم سے بچنا ہوجاتا ۔ واپسی یا جہاد پر جانا ان دونوں صورتوں میں قتال مسلم سے بچنا تو ظاہر ہی ہے بلکہ اِس سے بڑھ کر یزید کی حکومت کو تسلیم کرنا بھی لازم آتا ہے کیونکہ اِن کا گھر مدینہ شریف میں تھا اور وہاں یزید کی حکومت تھی اور دوسری صورت میں اگر انہیں آگے جہاد پر جانے کی اجازت دے دی جاتی تو وہ کوفہ (ڈویژنل ہیڈ کوارڑر) کے تابع ہوکر ہی آگے جاتے، آذربائیجان، بخارا، بلخ وغیرہ تک کی ساری شمالی پٹی کا فوجی مرکز کوفہ ہی تھاجیسے اِس کے جنوبی حصہ (میں سندھ تک) کا مرکز بصرہ تھا۔ شمال میں قسطنطنیہ تک کا مرکز خود شام و فلسطین تھا اور افریقہ کے تمام مفتوحہ علاقوں کا ڈویژنل ہیڈکوارٹر مصر تھا۔ غرض اِن کے نزدیک بغیر قتال مسلم اگر یہ معاملہ امارت طے ہوجاتا تو درست ہوتا اور یہی انہیں توقع تھی۔ لیکن ابن زیاد نے اِن سے مطالبہ کیا کہ وہ پہلے یزید کی بیعت قبول کریں پھر انہیں گرفتار کیا جائے گا پھر فیصلہ کیا جائے گا کہ یزید کے پاس بھیجا جائے یا نہیں۔ اُس نے نہ یزید سے ان کی رشتہ داری کا خیال کیا نہ قرابت رسول اللہ ۖ کا لحاظ کیا اور صرف مذکورہ بالا صورت ہی پر اصرار کیا جو شرعاً ناجائز تھا اور غیرت، حمیت و عزت نفس جو شریعت نے ہر مسلمان کو بخشی ہے اس کے منافی تھا۔ اس لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اِسے نہ مانا جس کے نتیجہ میں اِن کی شہادت ہوئی۔ ابن زیاد کا یہ رویہ غیر شرعی تھا کیونکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے اُن باغیوں کے ساتھ بھی کہ جنہوں نے